Daily Roshni News

آپ روشنی کریں لوگ خود اپنا راستہ ڈھونڈ لیں گے”۔

آپ روشنی کریں لوگ خود اپنا راستہ ڈھونڈ لیں گے”۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سائیکالوجی میں  ایک  اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، سیلف امیج (self image). انسان خود کو کیسے دیکھتا ہے, کیا سمجھتا ہے  اس کو سیلف امیج کہتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور اصطلاح استعمال ہوتی ہے، آئیڈیل سیلف (ideal self)۔ انسان کیسا بننا چاہتا ہے، کیسا دکھنا چاہتا ہے، کیسے ہونا چاہتا ہے، اس کو آئیڈیل سیلف کہتے ہیں۔ اگر سیلف امیج اور آئیڈیل سیلف ایک جیسے ہوں تو وہ انسان بہت خوش رہتا ہے،  پرسکون رہتا ہے، پر اعتماد رہتا ہے۔ لیکن اگر  سیلف امیج اور آئیڈیل سیلف میں فرق ہو تو انسان انگزائٹی اور مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے،  اس کی زندگی میں سکون کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

مثلا کسی شخص کا رنگ کالا ہے، تو  وہ سیلف امیج میں خود کو کالا دیکھے گا،  لیکن اگر اس کے  آئیڈیل سیلف میں وہ خود کو سفید دیکھ رہا ہے،  تو دونوں میں فرق زیادہ ہوگا،  جس کی وجہ سے وہ خود کو ناپسند کرے گا،  یہ سب کچھ لاشعوری طور پر ہوتا ہے،  ان دونوں میں فرق جتنا زیادہ ہوتا جائے گا  اتنی ہی احساس کمتری  آ جائے گی۔

  کیونکہ وہ  آئیڈیل سیلف میں خود کو گورا دیکھ رہا ہے، اس لیے وہ ہر دم کوشش کرتا رہے گا کہ کسی طرح اس کا رنگ گورا ہو جائے،  اگر وہ لوگوں کے درمیان میں ہوگا تب بھی وہ گھبراہٹ اور نروس رہے گا وہ لاشعوری طور پر یہ سوچ رہا ہو گا کہ مجھ کو جیسا ہونا چاہیے تھا ویسا میں نہیں ہوں۔  یہ مسئلہ لڑکوں کی نسبت لڑکیوں میں زیادہ ہوتا ہے،  اس لیے اکثر لڑکیاں رنگ کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں۔

انسان کا رنگ کیونکہ قدرتی ہوتا ہے اس لئے یہ  تبدیل ہونا کافی مشکل ہوتا ہے،  لیکن اس کا نقصان یہ ہوگا کہ وہ  پریشان رہے گا، اس کا اعتماد کم ہو جائے گا۔  لیکن اگر وہ ایسا کرے کہ  اپنے  آئیڈیل سیلف میں خود کو اسی رنگ میں دیکھے جیسا اس کا اصل رنگ ہے،  تو اس کا سیلف امیج اور آئیڈیل سیلف بالکل ایک جیسے ہو جائیں گے، 

Self image = ideal self

اگر وہ  آئیڈیل سیلف میں اسی کالے رنگ میں خود کو مسکراتا ہوا, ہنستا ہوا اور پراعتماد دیکھے گا تو اس کا سیلف امیج بھی ویسا ہی بن جائے گا کیونکہ پراعتماد ہونا ممکن ہے جبکہ رنگ تبدیل ہونا یہ کافی مشکل ہوتا ہے۔

آپ نے اکثر نوٹ کیا ہوگا کچھ لوگ رنگ کے کالے ہوتے ہیں یا ان کا قد بہت چھوٹا ہوتا ہے یا ان کے بال سفید ہوتے ہیں یا کوئی اور جسم کا حصہ  عام انسانوں جیسا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ بہت خوش نظر آتے ہیں، بہت  پر اعتماد نظر آتے ہیں۔  اس کے پیچھے  فلاسفی یہی ہوتی ہے کہ ان کے اندر تبدیل ہونے کی خواہش نہیں ہوتی، ان کا آئیڈیل سیلف ویسا ہی ہوتا ہے جیسا  کہ وہ خود ہیں۔

جب والدین بچوں کو کہتے ہیں کہ فلاں بچہ تم سے زیادہ اچھا ہے تو اس بچے کے ذہن میں آئیڈیل سیلف اس بچے جیسا ہوتا ہے جو اس سے آگے ہے، جبکہ اس کا سیلف امیج تو وہی ہے جو حقیقت میں ہے،  اس لئے ان دونوں میں فرق زیادہ ہونے کی وجہ سے بچہ اعتماد کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے والدین کو چاہیے کہ وہ ایسی غلطی نہ کریں۔

اسی لیے ہر مذہب میں یہی تعلیم ملتی ہے کہ آپ جیسے ہیں ویسے ہی خود کو قبول کریں،  اس طرح قبول کرنے سے انسان کی زندگی میں سکون اور خوشی ہو جاتی ہے،  یہاں اس بات کا خیال رکھیں کہ اس میں وہ چیزیں شامل ہیں جو قدرتی ہیں، جو کہ تبدیل نہیں ہو سکتی،  جیسے انسان کا رنگ، اس کا قد،  اس کے بال،  آنکھیں, نظر، دانت،  ذہانت،  آواز، لہجہ  وغیرہ،  جبکہ جو دوسری خوبیاں ہیں جیسے اعتماد،  بردباری،  صبر،  بہادری،  سخاوت،  دوسروں کو سمجھنا،  اس کے علاوہ تمام اچھی عادتیں وغیرہ۔  یہ سب چیزیں فکس نہیں ہیں ان کو آپ بہتر کر سکتے ہیں۔

نفسیات میں یہ چیزیں بہت چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن ان کا اثر انسان کی شخصیت پر اس کے رویے پر اس کی سوچ پر بہت گہرا ہوتا ہے،  اس کی آگاہی دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو بہتر کر سکیں، اپنی لائف کو بہتر کرسکیں۔  اس لیے میں ان کو آسان الفاظ میں اور عام فہم انداز میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، جس سے ایک کم پڑھا لکھا شخص بھی  سائیکالوجی کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔  جیسا کہ ایلا بیکر نے کہا تھا

“Give light and people will find the way.”

آپ روشنی کریں لوگ خود اپنا راستہ ڈھونڈ لیں گے”۔

Loading