آپ کو یہ ڈرامہ کیسا لگا تھا، اور کیا یادیں جڑی ہوئی ہیں؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو زانٹرنیشنل )اس ڈرامے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اک خاتون نے نیئر اعجاز (کالی داس) کو رئیل لایف میں ایئرپورٹ پہ تھپڑ رسید کیا۔
اس خاتون کا کہنا تھا کہ میں کوئی بیس سالوں سے وہی خوف اپنے اندر پال رہی ہوں جو آپ نے اپنی جاندار اداکاری سے پیدا کیا تھا۔ دراصل کالی داس شیتل (اداکارہ نرما) پہ کسی اور سے محبت کرنے کے شک کو مدنظر رکھتے ہوئے شیو کرتا ہے اور گنگناتا ہے:
”کون ہے جو سپنوں میں آیا۔۔۔۔شیتل”۔۔ اور اچانک موڈ خراب ہوتے ہی وہ بلیڈ سے شیتل کو مارتا ہے۔
ڈرامہ: لاگ (معنی محبت/واسبتگی)
ٹیل کاسٹ: 1998-2000
کل اقساط: 27
تحریر/ہدایات/ہیرو: رئوف خالد
کاسٹ: رئوف خالد، زیبا بختیار، نادیہ خان، سہیل اصغر، نئیر اعجاز، نرما، راشد محمود، اظہرہ آفتاب و دیگر
یہ ڈرامہ میں نے تب دیکھا جب کچھ کچھ ہوش سنبھالا تھا۔ گائوں (بالاکوٹ) میں ہی کچھ ہی گھروں میں ٹیلی وژن ہوا کرتا تھا۔ اب جس دن یہ ڈرامہ چلتا تھا تو محلہ سے سبھی اک اک کرتے پہنچ جاتے کہ کیلاش والا ڈرامہ لگا ہے۔
کیلاش کا ہیئر سٹائل کا الگ ہی چرچا ہوا کرتے تھا۔
کیلاش دراصل کاکو لالہ کے گینگ کے ہاتھوں اپنے بہن بھائیوں کو کھو بیٹھتا ہے۔ اور بچتا بچاتا مقبوضہ کشمیر میں اک انڈین فیملی کے پاس پلنے لگتا ہے۔ وہ اسے ہریرہ سے کیلاش کا نام دیتے ہیں۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے اسکی یاداشت اور اپنا ماضی اسے ہائونٹ کرتا ہے۔ پھر اپنی ماں کی تلاش میں وہ نکل پڑتا ہے۔ اس سفر میں محبت بھی ہے، سازشیں بھی ہیں، غلط فہمیاں بھی ہیں، فرعون بنے پولیس بھی ہیں، ڈرپوک لوگ بھی ہیں جو اپنے وقتی فائدے کے لیے کچھ بھی بیچنے کو تیار ہیں۔ (مزید کہانی نہیں بتائوں گا کیوں کہ اس سے جنہوں نے نہیں دیکھا ان کا سارا سسپنس سپوائل ہوجانا)۔
بہت کم ایسے ڈرامے ہو گزرے ہیں جس کے دو تین سے زائد کردار مشہور ہوئے ہوں گے۔ کاکو لالہ، سفیہ، کیلاش، شیتل، کیلاش، کالی داس اور دیگر کردار ہمارے گلی محلوں میں گفت گو کا حصہ بن گے۔
مجھے اچھے سے یاد ہیکہ جب آخری قسط کا اعلان ہوا تو دل بڑا رنجیدہ سا ہونے لگا۔ شہر سے آئے کزنز اور غالبا عید کی تیاریاں بھی جوبن پہ تھیں۔ ایسے گھر میں چہل پہل سی تھی۔
پھر اس ڈرامے کی آخری قسط نے ہم سب کزنز کا دل اداس کردیا۔ ایسے لگا کوئی بہت اپنا ہم سے کھو گیا ہے۔ (کہانی کا اینڈ پتہ چلنے کا احتمال ہے ورنہ مزید لکھتا، جنہوں نے دیکھا ہے وہ سمجھ گے ہوں گے میں کس جانب اشارہ کر رہا ہوں)۔ ہم سب نے جنگل کے دامن میں دادی اماں کے گھر میں کرکٹ کا میچ شروع کیا اور بیس پچیس کرکٹ کی پوزیشنیں بنا کر اپنا غم غلط کیا تھا۔
رئوف خالد پاکستان ٹیلی وژن سے میری پسندیدہ شخصیات میں سے اک ہیں۔ جسے لکھنا بھی آتا تھا، سٹائلش اداکار بھی تھا، پروڈکشن میں لاج جیسی فلم بھی بنا ڈالی تھی۔ اور اس پہ چار چاند کہ پڑھا لکھا جوان۔ لیکن
2011ء میں اک ایکسیڈنٹ میں اللہ کو پیارے ہوگے۔
جیسے جان کیٹس انگریزی ادب میں، نازیہ حسن میوزک میں، شیو کماری بٹالوی پنجابی ادب میں، اگر مزید زندہ رہتے تو کمال کارنامے کرتے۔ مگر کم ہی عمر میں لمبا کھیل گے۔
آپ کو یہ ڈرامہ کیسا لگا تھا، اور کیا یادیں جڑی ہوئی ہیں؟