Daily Roshni News

ابنِ خلدون کا نظریۂ تشکیلِ ریاست, تاریخ کا آئینہ

ابنِ خلدون کا نظریۂ تشکیلِ ریاست, تاریخ کا آئینہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )علامہ عبدالرحمٰن بن خلدون کو اسلامی دنیا ہی نہیں بلکہ پوری انسانی تاریخ کا سب سے عظیم مؤرخ اور ماہرِ عمرانیات مانا جاتا ہے۔ ان کی شہرۂ آفاق کتاب “المقدمہ” نے تاریخ اور سماجیات کے اصولوں کو ایک نیا رخ دیا. ایسا رخ جسے آج بھی مغربی یونیورسٹیوں میں Political Sociology کی بنیادوں میں شامل پڑھایا جاتا ہے۔

ابنِ خلدون نے ریاست کے قیام، اس کے بڑھنے، مضبوط ہونے اور پھر زوال کی طرف جانے کے پورے عمل کی ایسی حیرت انگیز تشریح کی جو انسانی معاشروں کے اندرونی نظام کو سمجھنے کی کنجی بن گئی۔

  1. عصبیّت — ریاست کا پہلا بیج!

ابنِ خلدون فرماتے ہیں کہ ہر ریاست کی ابتدا عصبیّت سے ہوتی ہے.

 یعنی وہ اجتماعی قوت جو:

کسی قبیلے کو متحد رکھتی ہے,کسی قوم کو ایک مقصد پر کھڑا کرتی ہے

اور ایک گروہ کو دوسروں کے مقابل مضبوط بناتی ہے. یہی قوت قیادت پیدا کرتی ہے، یہی حکمرانی کو جنم دیتی ہے، اور یہی نئے سیاسی نظاموں کی بنیاد بنتی ہے۔

  1. ریاست کا قیام — اتحاد سے نظام تک!

جب کسی قوم میں عصبیّت مضبوط ہو جائے تو وہ:

ظلم کا مقابلہ کرتی ہے،انصاف کی بنیاد ڈالتی ہے اور دوسروں پر غلبہ پاکر ریاست کی بنیاد رکھتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جسے ابن خلدون “غلبہ و مُلک” کہتے ہیں۔

  1. ریاست کا عروج — تعمیر، طاقت اور خوشحالی!

استحکام کے بعد ریاست ترقی کے سنہرے دور میں داخل ہوتی ہے۔ علم و فنون بڑھتے ہیں۔ شاہراہیں، بازار، مدرسے اور قلعے بنتے ہیں۔ فوج مضبوط ہوتی ہے

معیشت پھلنے پھولنے لگتی ہے۔ لیکن یہی خوشحالی آہستہ آہستہ قوم میں نرمی اور آرام طلبی پیدا کر دیتی ہے۔ وہ جدوجہد جو ابتدا میں تھی، کمزور ہونے لگتی ہے۔

  1. زوال، جب قومیں اپنی اصل کھو دیتی ہیں!

ابن خلدون کے نزدیک زوال اُس وقت شروع ہوتا ہے جب:

عصبیّت کمزور ہو جائے،آرام طلبی بڑھ جائے،حکمران ظلم کرنے لگیں

امرا عیش و عشرت میں ڈوب جائیں اور معاشرے سے جہدِ مسلسل کا جذبہ ختم ہو جائے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو نئی اور تازہ دم قومیں پرانی، بوڑھی ریاستوں پر غالب آ جاتی ہیں۔ یہ تاریخ کا مستقل قانون ہے۔

ابن خلدون کا قول

“عدل بادشاہت کو قائم رکھتا ہے، اور ظلم ریاستوں کو جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے۔”

یہ قول صرف نصیحت نہیں بلکہ پوری تاریخ کا نچوڑ ہے۔

چند مسلمان سلطنتوں کی مثالیں، ابن خلدون کا نظریہ کیسے ثابت ہوا؟

  1. سلطنتِ عثمانیہ!

 شروع میں ان کی قوت جہاد، سادگی، ڈسپلن اور مضبوط قبائلی عصبیّت تھی۔

 لیکن بعد میں:

حرم کی سیاست، محلّاتی سازشیں،لگژری اور عیش پرستی اور فوجی کمزوری نے اس عظیم سلطنت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔

  1. مغل سلطنت!

اکبر سے اورنگزیب تک ریاست اپنے عروج پر تھی۔

 لیکن آخری دور میں:

درباری سازشیں، لالج و عیاشی، کمزور قیادت اور علاقائی بغاوتیں نے مغل قوت کو ختم کر دیا

 یہ وہی اصول ہیں جنہیں ابن خلدون نے “عصبیّت کا زوال” کہا۔

  1. سلجوق سلطنت!

سلجوق شروع میں بے مثال عسکری قوت رکھتے تھے۔

 مگر وقت کے ساتھ:

داخلی اختلاف،شاہی تقسیم اور فوجی بدانتظامی نے ان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔

  1. ایوبی سلطنت!

صلاح الدین ایوبی کی قیادت عصبیّت کی بہترین مثال تھی۔

 لیکن ان کے بعد:خاندان کے اندر اقتدار کی جنگ ریاست کا کئی حصوں میں بٹ جانا، اس نے ایوبی طاقت کو کمزور کر دیا۔

  1. خلافتِ اندلس

اندلس کا زوال ابنِ خلدون کے نظریے کی ایک کھلی ہوئی مثال ہے۔

 عیش و عشرت، اندرونی خلفشار اور فرقہ واریت نے وہ تہذیب مٹا دی جس نے دنیا کو علم و فن دیا تھا۔

ابن خلدون نے جو اصول 14ویں صدی میں لکھے، آج بھی 21ویں صدی کے سیاسی ماہرین اسی کو بطور بنیاد استعمال کرتے ہیں۔ ریاستیں ہتھیاروں سے نہیں بنتیں۔ قومیں کردار، غیرت، اتحاد اور عدل سے بنتی ہیں۔

 تحریر: محمد سہیل

Loading