Daily Roshni News

ابھی داڑھی مونچھ بھی ٹھیک سے نہیں آئی تھی۔

ابھی داڑھی مونچھ بھی ٹھیک سے نہیں آئی تھی۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ابھی داڑھی مونچھ بھی ٹھیک سے نہیں آئی تھی۔ یاہو میسنجر پر لاہور کی ایک لڑکی سے چیٹ کا سلسلہ شروع ہوا جو اتنا پھیلا کہ میں اسے ملنے سیالکوٹ سے لاہور آ گیا۔ اس نے مجھے لاہور پہنچنے پر مون مارکیٹ فیصل ٹاون میں واقع ایک اسنوکر کلب کا بتایا۔ پہلے مجھے شک تو گزرا کہ لڑکی کا اسنوکر کلب میں کیا کام مگر محبت اندھی ہوتی ہے اور انٹرنیٹ کے اوائل دور میں یاہو میسنجر پر ہونے والی محبت شدید انی ہوتی تھی۔

تیار شیار ہو کر تین گھنٹے کا سفر بس پر کیا اور آگے رکشہ لے کر اسنوکر کلب پہنچا تو وہاں ہر جگہ اوباش قسم کے لڑکے سگریٹ نوشی میں مشغول گپ شپ کرتے اسنوکر کھیل رہے تھے۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ محبت میں دھوکا ہو گیا ہے۔ ٹوٹے دل کے ساتھ ابھی کلب سے باہر ہی نکلا تھا کہ ایک پچیس تیس سالہ مرد نے مجھے آواز لگائی۔ میں نے رک کر دیکھا تو وہ چلتا میرے پاس آیا اور بولا ” میں ہی ہوں شازیہ ، مائنڈ نہیں کرنا یار۔ بس ایسے ہی شغل لگایا ہوا تھا۔ چلو تم کو پیپسی پلاوں”

پیپسی پلاوں ؟ کمینہ کہیں کا۔ اس وقت میرا دل سوڈے کی بوتل جیسا ابالی ہو رہا تھا۔ آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے۔اس وقت مجھے ہر شے زہر لگ رہی تھی۔ مجھے شدید غصہ آ رہا تھا لیکن میں اس “بڑے لڑکے” سے لڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں نے وہاں سے دوڑ لگا دی۔ میرا دل کر رہا تھا اس شازیہ کے ٹوٹے ٹوٹے کر دوں۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کروں۔ مجھے سکون نہیں مل رہا تھا۔ دوڑتا ہانپتا سڑک پر پہنچا۔ رکشہ لیا۔ اس میں بیٹھا۔رکشے والے چاچا نے رکشے میں ٹیپ لگا دی۔۔۔

محبت کی جھوٹی کہانی پہ روئے

بڑی چوٹ کھائی جوانی پہ روئے

یہ سنتے ہی میں جو کنٹرول کیئے بیٹھا تھا آپے سے باہر ہو گیا۔ میں نے چاچے کو دنیا جہاں کی اول فول گالیاں دے ڈالیں۔ اس نے گھبرا کے رکشہ روک لیا اور کہنے لگا “کی ہویا پتر کی ہویا اے”۔ میں نے نیچے اترتے اس کے رکشے کو دو ٹھڈے مارے جیب سے دس دس کے تین نوٹ نکالے اور رکشے والے کی سیٹ پر پھینک کر دوڑ گیا۔

واپس لاہور تا سیالکوٹ، بس میں سارا راستہ سانسیں ہموار نہ ہو پائیں۔ لوگ مجھے دیکھتے تو سمجھتے کہ ہائے بچہ تپ دق کا مریض ہے۔ ایک اماں نے تو اپنے سٹاپ پر اترتے وقت مجھے دیسی نسخہ بھی تجویز کر دیا۔ گھر پہنچتے ہی یاہو پر لاگ ان کیا اور شازیہ کو ڈیلیٹ کر دیا۔ اس دن کے بعد سے جو جو اصلی شازیہ زندگی میں کہیں بھی ملتی ہے مجھے خوامخواہ اس پر غصہ آنے لگتا ہے۔۔

کچھ دن پہلے ایک کال آئی۔ فون اٹھایا تو آواز آئی ” میں سلک بینک سے شازیہ بات کر رہی ہوں۔ آپ کی کریڈٹ ہسٹری کو دیکھتے ہوئے سلک بینک آپ کو ڈائمنڈ کارڈ کی آفر دے رہا ہے۔ کیا آپ اپنا کریڈٹ کارڈ اپ گریڈ کرنا چاہیں گے” ۔۔۔ میں اس قسم کی ایڈوٹائزنگ کالز سے ویسے ہی بیزار ہوتا ہوں اوپر سے اس کا نام شازیہ تھا۔میں نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا ” شازیہ ! اب فون نہ کرنا، میں تمہارے لئے مر گیا🥺🥺😑😑😀😀

Muhammed noman کی وال سے کاپی شدہ

(آوارہ منقول)

Loading