Daily Roshni News

اب آپ لوگ سوال پوچھو ۔ تحریر۔۔۔واصف علی واصف ؒ

۔۔۔۔اب آپ لوگ سوال پوچھو۔۔۔۔

تحریر۔۔۔واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اب آپ لوگ سوال پوچھو ۔ تحریر۔۔۔واصف علی واصف ؒ)آج آپ لوگ سوال نہیں پوچھ رہے۔ آپ دراصل غور نہیں کر رہے اس لئے آپ کے ذہن میں سوال نہیں آ رہے ورنہ سوال تو بہت ہیں۔ زندگی میں انسان سوچتا رہتا ہے، چلتا رہتا ہے، حاصل کرتا رہتا ہے کہ خرچ کرتا رہتا ہے، اگر زندگی کی بات سمجھ نہ بھی آئے تب بھی چلتا رہتا ہے اور اگر سمجھ آجائے تب بھی وہ چلتا رہتا ہے۔ باشعور لوگ جو ہیں ان کو زندگی میں اگر حقیقت نہ بھی سمجھ آئے تب بھی وہ باشعور ہی کہلاتے ہیں۔ اپنے ہونے کا شعور ہی انہیں باشعور بناتا ہے۔ تو باشعور آدمی جو ہے وہ اگر کسی سوال سے دوچار ہو تب بھی باشعور ہی کہلائے گا یعنی کہ وہ سوالات جن میں وہ الجھا ہوا ہے، اسے ان سوالات کا شعور ہو جائے اور ان وقتوں کا شعور ہو جائے تب بھی باشعور ہی کہلائے گا۔ زندگی کی دقتوں میں اگر انسان یہ پہچان لے کہ اصل میں کیا وقت ہے اور کہاں چیز اٹک رہی ہے تو اس چیز کا جاننا بہت ضروری ہے اور اگر وہ اپنے سوال کو Announce کر جائے یہ اعلان کر جائے کہ یہ بات تو ہمیں سمجھ نہیں آئی تو یہ بھی شعور کا حصہ ہے۔ پھر اس کی زندگی تو ختم ہو جائے گی مگر اس کے یہ سوال آنے والے بہت سے زمانوں کے لئے بڑے قیمتی ہوں گے۔ تو دل میں پیدا ہونے والے سوال اگر باہر آجائیں، ان کیAnnouncementہوجائے،  Pronunciation ہو جائے باقی لوگ جو یہ سفر کر رہے ہیں، انہیں جہاں یہ سوال پیش آئے گا تو انہیں جواب بھی مل جائے گا۔ بعض اوقات انسان غور کرنا شروع کر دے تو سوال تک پہنچتا ہے اور بعض اوقات جواب تک پہنچتا ہے، اگر سوال تک پہنچے تو پھر سوال کوئی نہیں رہتا ہے اور اگر جواب تک پہنچے تو پھر جواب کوئی نہیں ہے۔ سوال اس لئے پوچھنا چاہئے تاکہ آنے والے لوگوں کو سوال کی سمجھ آئے۔ ایسے سوالات جو اٹک رہے ہیں اور ذہن میں Conflict پیدا کرتے ہیں، ان کو Announce کرنا سیکھنا چاہئے اور پوچھ لینے چاہئیں۔ پھر جو چیز سمجھ نہیں آ رہی وہ سمجھ آ جائے گی اور سارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس لئے اپنے سوالات کو دریافت کرنا چاہئے اور موقعه و محل کے مطابق بولنا چاہئے۔ لہٰذا آپ سوالات کرو۔ ایسا سوال کرو کہ جس Thought میں رکاوٹ ہے وہ پوچھے اور جس کو Faith میں رکاوٹ ہو، وہ سوال پوچھے۔ اب آپ لوگ سوال پوچھو۔

(واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ کی ایک محفل سے اقتباس)

Loading