Daily Roshni News

اتنی سی بات تھی ۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )انسانی زندگی برف سے جلدی پگل رہی ہے اتنی عمر ہو گئی کتنا روئے ،کتنا سوئے ، کتنا مسکرائے ، کتنے قہقہے لگائے ، کتنا کھایا ، کتنا نکالا ، کتنا لوٹا ، کتنا سچ بولا ، کتنا فراڈ کیا ، کتنا دکھ ملا ، کتنی خوشیاں ملیں ، کتنا پیسہ ملا ، کتنے دن فاقے کیئے ، کتنے کپڑے خریدے ، کتنی سیریں کیں ، کتنی عزت کمائی ، کتنی ذلت اٹھائی ، کس طرح کمائیاں کیں ، کتنی رشوت لی ، کتنے لوگوں کے ساتھ زیادتی کی ، کیسے کیسے شکوے لڑائیاں طنز طعنے برداشت کئیے یہ سارا میٹیریل صرف اور صرف ذہنوں میں یا موبائل فون کی گیلری میں ایک خواب بن کر رہ گیا ہے یا پھر ہمارے اچھے برے اعمال کے ثبوت میں فرشتوں نے کاپی پر لکھ لیا ہے حقیقت صرف یہیں ہے جو آج اس لمحے ہم اور آپ حاضر ہیں اور اس لمحے کو گزار رہے ہیں ،،

شکر کرنا سیکھیں الحمدللہ ،، الحمدللہ ،، الحمدللہ دنیا دکھ کا دریا ہے سمندر نہیں ، سمندر نہیں کہوں گا کیونکہ اس

 دنیا میں ہر وقت ایک ہی موسم نہیں ملتا ہماری پسند کا موسم جلدی گزر جاتا ہے اور جو موسم پسند نہیں وقت duration اسکا بھی اتنا ہی ہوتا ہے جتنا اچھے موسم کا مگر ہم دکھ کے موسم کو ہر سیکنڈ میں دس بار رو  😭  رو کر یاد کرتے ہیں اس لئے وہ بھاری لگنے لگتا ہے جبکہ خوشی 😊🥳  کے موسم کو ہم ناپتے تولتے نہیں بس مزے کرتے ہیں ذہن ہلکا ہلکا سا مست محسوس ہوتا ہے مستی میں رہتا ہے اس لئے وہ وقت ہلکا لگتا ہے اور فٹا فٹ گزر بھی گیا ۔ اگر دنیا دکھ کا دریا ہے بھی تو پھر کیا ہوا ہم نے کونسا ساری زندگی اس دکھ میں سڑتے مرتے رہنا ہے  70 سال حد 80 سال بس بلکہ آج کل جوان اموات زیادہ نظر آتی ہیں ” موت ” اسکے بعد دوسری دنیا جو ہمیشہ رہنے والی ہے وہ وقت عرصے سالوں پر مبنی نہیں وہاں کبھی زندگی ختم ہونی ہی نہیں اب سوچیں جہاں زندگی کبھی ختم ہونی ہی نہیں ہمیشہ ہمیشہ ہم زندہ رہیں گے تو یہ ہمیشہ کی زندگی کتنی لمبی زندگی ہو گی سوچیں 🤔 تو ہم ان کچھ سالوں کی خواب جیسی زندگی کو سجانے کیلئے کیا کچھ غلط حرکتیں نہیں کرتے یہ دنیا کچھ عرصے میں ختم ، تو اس چھوٹے سے عرصے میں اگر دکھ ہی دکھ اگر ملتے بھی ہیں تو پھر کیا ہوا رو لیں گے 🥲🥹 بار بار رو لیں گے اگر رونا ہی قسمت میں اللہ پاک نے لکھا ہے تو پھر کیا ہوا اسکی خوشی 🕋 ،،

ہم سب کی کیا اوقات ہم غلام ہیں مالک جو دیتا ہے لے لیں گے جو چھینتا ہے جا لے جا مالک تیری خوشی میں ہم خوش یقینا ہم اسی قابل تھے یا اس میں ہی ہمارے لئے کچھ سبق تھا یا ہمارے اعمال کا بدلہ یا کچھ آزمائش تھی کچھ ہمارا نصیب تھا کیونکہ اللہ پاک کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا یہ بات پتھر پہ لکیر ہے ایک وہی ذات تو ہے جس پہ ہم اپنے والدین سے بھی کہیں کہیں کہیں زیادہ اندھا اعتبار کر سکتے ہیں وہ مالک تو ہمارے گناہوں کو بخشنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے تو ہمیں کیسے بلاوجہ مصیبت میں ڈالے گا سوچنا بھی نہیں ،،،،

 اگر زندگی دکھ کا دریا ہے بھی تو اس مالک کی دین ہے کیونکہ وہ اس دکھ تکلیف کے بدلے میں ہمیں وہ وہ عنایتیں کرنا چاہتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ،، خواب جیسی دنیا کے دکھ درد اور تکلیف کے بدلے میں انسان نے آخر کام کیا کرنا ہے صرف اور صرف برداشت ،، اور برداشت تھوڑی سی اور برداشت ،،،، صبر اور صبر تھوڑا سا اور صبر اسکے بعد پھر صبر  ،،،، اور شکر پھر شکر پھر سے شکر بار بار شکر  ___ اتنی سی بات تھی ۔

Loading