Daily Roshni News

اتوار کے دن مہمان آئے ہوئے تھے تو میں نے زردہ (متنجن) پکایا، کیا مزیدار تھا،

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو زانٹرنیشنل )میں ایک جگہ جاب کرتا تھا جہاں دفتر میں چھ سات لوگوں کا سٹاف ہوتا ہے، ایک نیا لڑکا بھرتی ہوا جو کہ کافی متحرک لیکن باتونی تھا۔۔

ایک دن کہنے لگا۔۔ “سر جی، اتوار کے دن مہمان آئے ہوئے تھے تو میں نے زردہ (متنجن) پکایا، کیا مزیدار تھا، سب لوگ انگلیاں چاٹتے رہ گئے”…

میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔۔ “واقعی۔۔ زردہ پکا لیتے ہو”۔۔؟

کہنے لگا۔۔۔”ایسا ویسا سر جی، بادام۔۔۔۔ پستہ۔۔۔۔ کاجو۔۔۔ کھویا اور رس گلے ڈال کر ایسا مزے کا زردہ پکاتا ہوں کہ جو ایک بار کھاتا ہے، زندگی بھر یاد کرتا ہے”…

میں نے دیکھا کہ آفس کے باقی لوگ بھی اس کی باتوں کو توجہ سے سن رہے تھے۔۔

میں نے کہا۔۔۔”جاوید یار پھر کسی دن ہمیں بھی کھلاؤ، ہمیں بھی تو پتا چلے کہ کتنے مزے کا زردہ پکاتے ہو”…

کہنے لگا۔۔ “سر جی، جب آپ حکم کریں۔۔ میں پکا لاؤں گا”…

میں نے کہا۔۔” نیک کام میں دیری کیسی، پرسوں ہفتہ ہے، ویک اینڈ بھی ہے، اللہ کا نام لے کر پکا لاؤ”…

دفتر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔ اور ہفتے کا انتظار شروع ہو گیا۔۔۔ ہفتے کی صبح جاوید نہیں آیا تو میں سمجھ گیا کہ زردہ پکا کر ہی ساتھ لائے گا۔۔

پورے پونے ایک بجے جاوید زردے کے پتیلے سمیت دفتر میں داخل ہوا۔۔۔ ہم لوگوں نے روٹی روز کی نسبت کم کھائی، اور پھر زردے کی طرف متوجہ ہوئے۔۔ زردہ واقعی بہت مزیدار تھا، بادام، پستہ، کاجو، کھویا، رس گلے سب کچھ موجود تھا۔۔ سب نے جی بھر کے کھایا اور ساتھ ساتھ تعریف بھی کرتے رہے۔۔ جاوید کے چہرے پر خوشی تھی۔۔

میں نے کہا۔۔”بھئی واہ جاوید، تمہارے ہاتھوں کا ذائقہ تو لاجواب ہے یار، ایسا زردہ میں نے پہلے کبھی نہیں کھایا”… کہنے لگا۔۔”سر جی، آپ جب بھی حکم کریں گے، میں پکا لایا کروں گا”…

لنچ کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔۔ پانچ بجے کے قریب جاوید میرے پاس آیا اور بولا۔۔ “سر جی، پانچ ہزار دیجئے گا”…

میں نے جیب سے پرس نکالتے ہوئے کہا۔۔”لے لو بھئی، تنخواہ پر واپس کر دینا”..

کہنے لگا۔۔۔” سر جی، ادھار تھوڑی لے رہا ہوں، یہ تو زردے کے پیسے ہیں، ابھی میں نے پکوائی کے پیسے نہیں لئے آپ سے”…

میرے چودہ طبق ہی روشن ہو گئے۔۔ ایک لمحے کو سوچا کہ اسے پیسے دوں یا جواب۔۔

پھر جس طرح ہمارے پردھان منتری سینے پر بھاری پتھر رکھ کر پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھاتے ہیں، ویسے ہی ایک بڑا سا پتھر دل پر رکھ کر اسے پانچ ہزار کا نوٹ دے دیا، اگرچہ دل مغلظات بکنے کو کر رہا تھا لیکن بھاری پتھر کے نیچے ہر چیز دب چکی تھی۔۔ زردے کا مزہ بھی کرکرہ ہو گیا تھا اور بجٹ بھی آؤٹ ہو گیا تھا۔۔ بوجھل دل کے ساتھ ویک اینڈ گزارا۔۔۔

سوموار کے دن جاوید ہمیں گزشتہ روز پکائے ہوئے مزیدار سے مٹن قورمے کے بارے میں بتلا رہا تھا۔۔۔ مجھے ایک دم سے پانچ ہزار کا نوٹ یاد آ گیا، جو میں نے ایک پلیٹ زردے کے بدلے اسے دان کیا تھا۔۔

میں نے تیز لہجے میں کہا۔۔۔ “جاوید، اپنا باورچی خانہ بند کرو اور کام پر فوکس کرو، ہر وقت کھانے پینے کی باتیں کرنا اچھا نہیں ہوتا”..

اگرچہ میرا مزاج اتنا سخت نہیں، لیکن پانچ ہزار کے نوٹ نے مجھے مجبور کر دیا تھا اس طرح بولنے کو۔۔۔

جاوید اس کے بعد بھی کبھی کبھی مجھے کہتا۔۔”سر جی اگر آپ حکم کریں تو۔۔۔ “

لیکن میں کبھی اس کی بات مکمل نہیں ہونے دیتا تھا اور اسے کوئی نہ کوئی کام بتا دیتا تھا۔۔

آٹھ دس ہزار کی مٹن قورمے کی پلیٹ میں افورڈ ہی نہیں کر سکتا تھا۔۔😉

(عین حیدر)

Loading