اداس چہرہ
جرمن ادب سے انتخاب شاہکار افسانہ
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ اداس چہرہ۔۔۔ جرمن ادب سے انتخاب شاہکار افسانہ)سردی کے سبب میں بری طرح کانپ رہا تھا۔ بھوک نے الگ ستار کھا تھا۔ میرا لباس جگہ جگہ سے پہنا ہوا تھا۔ میری شیو بڑھی ہوئی تھی جبکہ اعلان کے مطابق ہر آدمی پر لازم تھا کہ وہ ہشاش بشاش نظر آئے۔ تو یہ تھا میر اجرم، تھانے کی طرف جاتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ہر راہ گیر نے خوشی کا ماسک منہ پر چڑھار کھا ہے۔ ہمیں دیکھ کر کئی راہ گیر رک جاتے۔ سپاہی ہر ترک جانے والے کے کان میں کچھ کہتا تو اس کا چہرہ مسرت سے جھکنے لگتا۔ حالانکہ مجھے لگ رہا تھا کہ ہر کوئی بولا یا بولا یا سا پھر رہا ہے۔ ہر شخص دن بھر کی مثلات کے بعد جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا ہے۔ ہمارے راستے میں آنے والا ہر آدمی ہم سے بچ جانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ غالباً اس لیے کہ سپاہی کی تیز نگاہیں اس کا اصل چہرہ نہ بھانپ لیں۔ صاف لگ رہا تھا کہ ہر کوئی پولیس والے کی نظروں سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
ایک چوراہے پر ہماری ایک بوڑھے سے مڈ بھیٹر ہو گئی۔ وہ ملے سے کوئی اسکول ماسٹر لگ رہا تھا، ہم اس کے اتنا قریب پہنچ چکے تھے کہ وہ نیچ نکلنے سے قاصر تھا۔ قائدے کے مطابق اس نے بڑے احترام سے سپاہی کو سلام کیا اور میرے منہ پر تین بار تھوک کر کہا: ” غدار کہیں کا ! ” اس کی اس حرکت سے قانون کے تقاضے تو پورے ہو گئے مگر مجھے صاف محسوس ہوا کہ اس فرض کی ادائی سے اس کا گلا خشک ہو گیا ہے۔ میں نے آستین سے تھوک صاف کرنے کی جسارت کی تو میری کمر پر ایک زور دار مکا پڑا۔ سپاہی نے غرا کر کہاآگے بڑھو“۔
میں نے اپنی سزا کی طرف قدم بڑھا دیا۔اسکول ماسٹر تیز قدموں سے چلتا ہوا کہیں غائب ہو گیا۔ اب راستہ بالکل صاف تھا کیونکہ تمام راہ گیر ہم سے پہلو بچا کر دور سے گزر رہے تھے ۔ آخر ہم تفتیش گاہ پہنچ گئے۔ یکایک بیل بجنے کی آواز آئی۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ سب مزدور اپنے اپنے کام چھوڑ دیں اور نہاد ھو کر ، صاف لباس پہن کر خوش و خرم نظر آئیں۔ قانون کے مطابق فیکٹری سے باہر نکلنے والا ہر مزدور خوش نظر آرہا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ اس خوشی سے یہ تاثر ملے کہ وہ کام سے چھٹکارا پا کر بغلیں
بھا رہا ہے۔ میری خوش بختی کہ جنگل دس منٹ پہلے بجادیا گیا۔ شکر ہے کہ یہ دس منٹ مزدوروں نے ہاتھ منہ دھونے میں صرف کیے ورنہ قاعدے کے مطابق میں جس مزدور کے سامنے سے گزرتا، وہ تین مرتبہ میرے منہ پر تھوکتا۔
آخر کار ، پولیس سٹیشن پہنچ کر، وہ جگہ جہاں ہر گرفتاری ایک واقعہ سمجھی جاتی تھی، انہوں نے مجھے بغیر کسی مزاحمت کے اندر دھکیل دیا۔
پولیس اسٹیشن ایک سادہ سا کنکریٹ کا ابہ تھا، یہ عمارت سرخ پتھروں کی بنی ہوئی تھی۔ دو سپاہی دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ انہوں نے بھی ضابطے کے مطابق میری پیٹھ پر اپنی بندوقوں کے بٹ پ اپنی بند و رسید کیے۔
ہم ایک طویل اور سادہ راہداری سے گزرے، جس کے دونوں طرف بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں۔ پھر ایک دروازه خود بخود کھل گیا۔ یہ ایک تقریباً خالی کمرہ تھا جس کے اندر ایک بڑی سی میز تھی جس کے پاس دو کرسیاں پڑی تھیں اور میز پر ٹیلی فون پڑا تھا۔ مجھے کمرے کے چ کھڑا رہنے کو کہا گیا۔ پولیس والے نےاپنی ہیلمٹ اتاری اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر خاموشی رہی، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یہ ہمیشہ سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحہ ہوتا ہے۔ میں تھکا ہوا اور بہو کا تھا، اور وہ خوشی بھی ختم ہو چکی تھی جو بندر گاہ پر کھڑے ہو کر محسوس ہوئی تھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ اب میری شامت آچکی ہے۔
چند لمحوں بعد، ایک لمبا، پیلا چہرے والا آدمی کمرے میں داخل ہوا، جو ملکے بھورے رنگ کی وردی پہنے ہوئے تھا۔ وہ خاموشی سے بیٹھ گیا اور میری طرف دیکھنے لگا۔ اب مجھ سے تفتیش شروع ہوئی۔تم کیا کرتے ہو ؟“
ایک عام کامریڈ ہوں “ تاریخ پیدائش ؟ یکم جنوری 1901 یہاں کیا کر رہے ہو ؟“
” جی میں ایک جیل میں قید تھامیرا جواب سن کر دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔ کس جیل میں ؟“
جیل نمبر 12، کو ٹھری نمبر 13 میں نے کل ہی رہائی پائی ہے“۔
رہائی کا پروانہ کہاں ہے ؟“
میں نے جیب سے رہائی کے کاغذات نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے۔
تمہارا جرم کیا تھا ؟“
” جی میں ان دنوں خوش خوش دکھائی دےرہا تھا۔
وہ دونوں پھر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ کھل کر بات کرو…..
اس روز ایک بہت بڑا سرکاری افسر انتقال کر گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اعلان ہو ا کہ سب لوگ سوگ میں شامل ہوں گے ۔ مجھے اس افسر سے کوئی دلچسپی نہ تھی اس لیے الگ تھلک رہا۔ ایک پولیس مین نے مجھے گرفتار کر لیا اور یہ بیان دے کر اندر کروادیا کہ میں سوگ میں ڈوبے عوام سے الگ تھلگ خوشیاں منار ہا تھا“۔ تمہیں کتنی سزا ہوئی ؟“
” پانچ سال قید “ اس کے بعد ابتدائی تفتیش کار نے مزید سوالات کیسے اور میرے جوابات ایک سبز کارڈ پر درج کیے۔ آخر میں، وہ اپنی کرسی سے اٹھا، میرے پاس آیا، اور میرے تین سامنے والے دانت ایک ہی ضرب میں توڑ ڈالے۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ میں اب دوبارہ جرم کرنے والا مجرم” قرار پاچکا ہوں۔ کچھ کچھ ختم ہوئی تو اچانک مزید افسران اندر آئے اور میری پٹائی شروع کر دی۔ ہر ایک نے مجھ پر تشدد کیلا۔ جلد ہی میرا فیصلہ سنادیا گیا۔ میرے جرم، یعنی ” غمگیں چیر در کھنے “، کے بدلے مجھے اس بار دس سال قید کی سزادی گئی۔
جی ہاں! بالکل ویسے ہی جیسے پانچ سال پہلے خوشی سے کھلا ہوا چہرہ میرے لیے پانچ سال قید کا موجب بنا اور اب میرے معموم چہرے نے مجھے دس سال کی سزاو لا ڈالی تھی۔
اب میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ اگلے دس سال تک اپنے چہرے پر کوئی تاثر نہیں لاؤں گا، میں سوچنے لگا کہ جب مجھے رہائی نصیب ہو گی تو شاید میرا کوئی چہرہ ہی نہ ہو۔ نہ خوش و خرم نہ مغموم اور اداس۔۔۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025