Daily Roshni News

اداکارہ صبیحہ خانم۔۔۔ تحریر  ۔۔۔۔۔ محمد ارشد لئیق

۔۔۔۔۔۔۔ اداکارہ صبیحہ خانم  ۔۔۔۔۔۔۔

تحریر  ۔۔۔۔۔ محمد ارشد لئیق ۔۔۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ اداکارہ صبیحہ خانم۔۔۔ تحریر  ۔۔۔۔۔ محمد ارشد لئیق)  صبیحہ خانم فلم انڈسٹری کا ایسا نام ہیں جنہوں نے ایک عرصہ تک سلور سکرین پر راج کیا۔ انہوں نے مدھو بالا اور نرگس کی طرح سینما پر حکمرانی کی ۔ صبیحہ کی فریب نگاہ شخصیت، من موہنا انداز، مصفا کردار اور لاجواب اداکاری شہرت کا باعث بنی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اداکارہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن گئیں۔

صبیحہ خانم 16اکتوبر 1936ء کو گجرات میں پیدا ہوئیں۔ والدمحمد علی ماہیا کا تعلق موسیقی سے تھا۔محمد علی ماہیا اپنے دوست سلطان کھوسٹ کے کہنے پر لاہور آ گئے اور یہاں سٹیج سے منسلک ہو گئے۔ انہی دنوں شاعر اور مصنف نفیس خلیل نے سٹیج ڈرامہ ”بت شکن‘‘کرنے کا فیصلہ کیا جس میں سلطان کھوسٹ بھی ایک کردار نبھا رہے تھے، ان کی سفارش پر صبیحہ کو بھی ایک کردار مل گیا۔ انہوں نے یہ کردار خوب نبھایا اور شائقین سے داد بھی وصول کی۔

50 ء کی دہائی میں فلم سازو ہدایتکار مسعود پرویز نے انہیں فلم ”بیلی ‘‘سے فلمی دنیا میں متعارف کروایا۔ اس فلم میں صبیحہ خانم کی کارکردگی کو سراہا گیا لیکن مجموعی طور پر ”بیلی‘‘کو وہ کا میابی نصیب نہ ہوئی جس سے فنکار صف اوّل میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ اسی دوران مصنف و ہدایتکارانور کمال پاشا نے اپنی فلم ”دو آنسو‘‘ میں صبیحہ کو بطور ہیروئن کاسٹ کیا، مقابل سنتوش کمار تھے ۔یہ فلم ہدایتکاری و موسیقی کا عمدہ شاہکار ثابت ہوئی اور باکس آفس پر کامیاب ٹھہری، ان دنوں بھارتی فلمیں پاکستان میں بھی ریلیز ہوتی تھیں، لیکن ”دو آنسو‘‘ نے بھرپور کامیابی حاصل کر کے ثابت کر دیا پاکستان میں بھی اعلیٰ درجے کا کام کرنے والے فنکار موجود ہیں۔ یہ پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم تھی۔ اس کے بعد کامیابی کا سفر شروع ہوا اور صبیحہ آگے بڑھتی چلی گئیں۔ انہیں سنتوش کمار کے ساتھ پسند کیا جانے لگا اور دونوں کو مقبول رومانوی جوڑی کی شہرت بھی ملی۔ سنتوش کمار نے انہی دنوں نور جہاں، شمی، راگنی اور سورن لتا کے ساتھ بھی سپرہٹ فلمیں کیں، لیکن جو شہرت انہیں صبیحہ کے ساتھ ملی اس کی مثال کوئی دوسری اداکارہ نہ بن پائی۔

ان کی اگلی فلم ”غلام‘‘تھی جس میں شمی اور راگنی بھی شامل تھیں، لیکن پردہ سکرین پر صبیحہ نے اپنی پُرکشش شخصیت اور حقیقت سے قریب تر اداکاری سے سب کو پیچھے چھوڑ دیا، اوراس عہد کی مقبول ترین اداکارائوں میں آن کھڑی ہوئیں۔ یہ وہ دور تھا جب ملکہ ترنم نور جہاں کسی دوسری اداکارہ کیلئے گیت نہیں گاتی تھیں، اسی لیے شائقین فلم اس دور میں اداکاری اور گائیکی کا حسین امتزاج نہ دیکھ پائے، گو نور جہاں کا کسی دوسری اداکارہ کیلئے گایا ہوا پہلا گیت ”گائے گی دنیا گیت میرے‘‘ بھی صبیحہ پر پکچرائز ہوا۔

صبیحہ اور سنتوش نے ایک ساتھ کئی فلمو ںمیں کام کیا جن میں زیادہ سپرہٹ ثابت ہوئیں اور کچھ کو اوسط درجے کی کامیابی ملی۔ 1955ء میں اس جوڑی کی ریلیز ہونے والی فلم ”قاتل‘‘نے کامیابی کی نئی تاریخ رقم کی۔ فلمساز جی اے گل کی اس فلم کے ہدایتکار انور کمال پاشا، جبکہ موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے اورگیت قتیل شفائی سے لکھوائے گئے۔ اسی فلم کا گیت ”الفت کی نئی منزل کو چلا ‘‘جو اقبال بانو کی آواز میں ریکارڈ کیاگیا تھا خوب مقبول ہوا۔ ”قاتل‘‘کی کامیابی نے دونوں کو مقبول ترین فنکار بنا دیا۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ”سرفروش‘‘ ریلیز ہوئی، یہ بھی کامیاب فلم تھی، اس فلم کا ایک جملہ ”چوری میرا پیشہ اور نماز فرض ہے‘‘ ضرب المثل بن گیا، اس جملے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فلم کے گیتوں سے بھی زیادہ مقبول ہوا، اگلے برس اس جوڑی کی د و فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ”عشق لیلیٰ‘‘اور ”وعدہ‘‘۔”وعدہ‘‘اپنی نوعیت کی منفرد فلم تھی جبکہ اس میں شامل معروف شاعر سیف الدین سیف کا گیت ”جب ترے شہر سے گزرتا ہوں‘‘خوب مقبول ہوا۔ دوسری طرف جے سی آنند کی ”عشق لیلیٰ‘‘ تھی جس کی ہدایات، مکالمے اور کہانی منشی دل کے تھے۔ اس فلم کو عنایت حسین بھٹی کے کریئر کی سب سے بڑی فلم بھی قرار دیا گیا، ان کے گائے ہوئے دو گیت ”نکل کر تری محفل سے‘‘ اور ”محبت کا جنازہ جار ہا ہے‘‘ نے مقبولیت کے سبھی ریکارڈ توڑ دیئے۔ دلچسپ حقیقت یہ تھی کہ ”عشق لیلیٰ‘‘ کے مقابلے پر انور کمال پاشا نے ”لیلیٰ مجنوں‘‘ کے نام سے فلم بنائی لیکن یہ فلم بُری طرح ناکام ہو گئی۔

” عشق لیلیٰ ‘‘ میں 18گیت شامل کئے گئے تھے۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک۔ اقبال بانو کی آواز کا گایا ہوا ”ستارو تم تو سوجائو‘‘ جیسا شاہکار بھی اسی فلم سے سامنے آیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ لیلیٰ مجنوں کی داستان پر بننے والی فلموں میں کوئی اداکارہ ایسی نہیں جس نے صبیحہ کے تاثر کو زائل کیا ہو۔ صبیحہ نے ایسا ڈوب کر اداکاری کی تھی کہ شائقین کو یہی محسوس ہوا کہ اگر کوئی لیلیٰ تھی بھی تو وہ خود اس فلم میں کام کر رہی ہے۔ سنتوش اور صبیحہ حقیقی زندگی میں بھی ایک دوسرے سے خوب محبت کرتے تھے۔ دونوں نے شادی کی اور فلم انڈسٹری کی شادیوں کے برعکس نبھائی بھی۔

صبیحہ خانم کامیاب اداکارہ رہیں ، انہوں نے نور جہاں، مسرت نذیر اور سورن لتا کے دور میں کام کیا اور اپنی منفرد پہچان بنائی۔ ناقدین فن انہیں پاکستان فلم انڈسٹری کی سب سے اچھی اداکارہ قرار دیتے ہیں۔ فلمی دنیا کو خیرباد کہنے کے بعد وہ امریکہ منتقل ہو گئیں، جہاں 2020ء میں ان کا انتقال ہوا۔

تحریر محمد ارشد لئیق۔

#BirthAnniversary #PrideofPerformance #SabihaKhanum #Ptv  #SantoshKumar #Mukhra (1958), #Muskurahat (1959), #Rishta (1963), #Hasrat (1958), #Shikwa (1963), #TerayBaghair (1959), #Mauseeqar (1962), #Kaneez (1965), #DewarBhabi (1967), #ShaamDhalay (1960), #PakDaman (1969), #Anjuman (1970), #Sarfarosh (1956), #Inteqaam (1955), #Qatil (1955), #Sawaal (1966), #Commander (1968), #Mohabbat (1972) #Anjuman (1970) #Tehzeeb (1971) #IkGunahAurSahi (1975), #RahGuzar (1960), #Deewana (1964) #VintagePtv #AmmarAlavi

منقول

Loading