ازدواجی زندگی
خوشگوار بنائیں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ ازدواجی زندگی خوشگوار بنائیں )شوہر اور بیوی ایک جان دو قالب ہونے کے ساتھ ساتھ دو الگ الگ انسان ہیں۔ ان کی داخلی شخصیت میں ایک ایسی انفرادیت ہے جو میں نہیں۔ دو منفرد شخصیتیں ایک از دواری زندگی شكو ماتير دوسرے کور بنائیں
منفرد شخصیت میں صم نہیں ہو سکتیں، وہ محبت اور قربت کے باوجود دو وجود ہیں۔ دونوں شخصیتوں کا حسن اسی میں ہے کہ وہ گلاب اور چنبیلی کی طرح پروان چڑھیں اور پھولوں کی بیل کی مانند ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر گلزار کی رونق بڑھائیں۔
ازدواجی زندگی میں محبت و مسرت کے پانچ اصول
محبت:محبت کے لفظ میں مقناطیسی کشش ہے۔ یہ لفظ جادو کے اثرات رکھتا ہے۔ چار حرفوں سے بناہوا یہ لفظ کوئی اسم اعظم یا ماورائی تصور نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے، طبیعت کے تقاضوں کا لحاظ رکھنے، باہمی ضرورت کا احساس کرنے، جذبوں کا احترام کرنے اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا نام ہے۔ اچھے اور برے وقتوں میں شوہر اور بیوی جس معاملہ فہمی اور حسن – سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں وہی بنیاد ہے مستحکم تعلقات کی اور اسی کا نام سچی ہے مستحکم تعلقات کی اور اس کا نام سچی محبت ہے۔ اگر یہ طرز عمل مسلسل جاری رہا تو اس میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ لازوال بن جاتی ہے۔ اگر انسانی جذبوں کا احترام نہ کیا جائے تو دیگر تعلقات کی طرح دلوں کا یہ تعلق بھی کم زور پڑ جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں گے کہ ایک ایک اینٹ جوڑ کر محبت کی فلک بوس عمارت بنائی جاسکتی ہے۔
ازدواجی:عمارت کی دیکھ بھال نہ ہو تو اس میں شگاف بھی پڑ سکتے ہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ شوہر اور بیوی زمانے کے سرد و گرم موسموں سے گزرتے ہیں
جس کی وجہ سے بعض اوقات محبت کی گرم جوشی کم ہو جاتی ہے۔ تاہم اس عارضی سرد مہری سے پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسےہیں ہم اندر عاشقی بالائے غمہائے وگر“تصور کرنا چاہیے۔
باہمی ہمدردی، معاملہ فہمی اور حسن سلوک کی صفت موجود ہو تو تھوڑی سی بے رخی، ناراضی یا بے تعلق کے بعد یہ محبت لوٹ آتی ہے۔ محبت میں روٹھنے اور منانے کا عمل کوئی رخنہ نہیں پیدا کرتا بلکہ اکثر یہ باعث برکت ثابت ہوتا ہے۔ محبت کی بنیاد اخلاق اور ایثار پر رکھی گئی ہو تو یہ ضرور پائیدار ہو گی۔
قبولیت:محبت کا دوسرا نام قبولیت بھی ہے یعنی جب دو خطا اور نسیان کے پتلے انسان، شوہر اور بیوی کی شکل میں محبت کا تعلق قائم کرتے ہیں تو انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ فرشتے نہیں ہیں۔ نہ تو وہ بے مثال ہیں نہ ان کا ساتھی …. انسانوں میں خوبیاں اور خامیاں دونوں بیک وقت موجود ہوتی ہیں۔ شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کو اس کی تمام تر خوبیوں اور خرابیوں سمیت قبول کرنا چاہیے۔ خوبیوں کو مزید اجاگر کرنے اور خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کر نادوسری بات ہے اور نہایت اچھی بات ہے لیکن زندگی کے کسی دور میں بھی نہ تو شوہر ہر عیب سے مبرا انسان بن سکتا ہے نہ بیوی مجسم خیر کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس لیے مزاج اور عادت کی چھوٹی موٹی خامیوں کو نظر انداز کرنے یا برداشت کرنے یا قبول کر لینے کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ اگر ایک انسان کی ذات سے مجموعی طور پر پیار رہے تو کبھی کبھی اس کی خامیاں بھی کو بیاں نظر آتی ہیں۔ گو یہ فریب نظر ہے لیکن ایسے فریب کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
شادی اکسیر اعظم نہیں:شادی خواہ آپ نے اپنی مرضی سے کی ہے یا والدین کی رضا مندی سے کوئی ایسی اکسی اعظم نہیں ہے جو ہر زخم کو بھر دے، ہر غم کو بھلا دے اور ہر مسئلے کا حل پیش کر دے۔ اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ اس کا شریک حیات اس کی زندگی کی ہر تلخی کو شیرینی میں بدل دے گا اور اس کی ذات کا کرب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا تویہ خوش فہمی کی ایک شکل ہو سکتی ہے۔ سچائی نہیں. شوہر اور بیوی یک جان دو قالب ہونے کے ساتھ ساتھ دو الگ الگ انسان ہیں۔ ان کی داخلی شخصیت میں ایک ایسی انفرادی ہے جو دوسرے میں نہیں۔ دو منفرد شخصیتیں ایک منفرد شخصیت میں ضم نہیں ہو سکتیں …. وہ محبت اور قربت کے باوجود دو الگ وجود ہیں۔ دونوں شخصیتوں کا حسن اسی میں ہے کہ وہ گلاب اور چنبیلی کی طرح اپنے اپنے رنگ اور اندازمیں پروان چڑھیں اور پھولوں کی بیل کی طرح ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر گلزار حیات کی رونق بڑھائیں۔
اس بات کو یوں سمجھیں کہ دونوں الگ الگ خواب دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کی تعبیر ایک سی نکال سکتے ہیں۔ دونوں کسی مسئلے پر مختلف انداز سے سوچتے اور بحث کرتے ہوئے آخر کار ایک نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ آپ دونوں یہ چاہیں کہ دونوں کے ذہن میں جو ہلچل ہے، خیالوں کے جو قافلے گزر رہے ہیں وہ بھی ایک جیسے ہی ہوں تو یہ ممکن نہیں۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنا خیال ظاہر کیا جائے اور دوسرے کو ہم خیال بنایا جائے یا
اس کے خیال کو قبول کر لیا جائے۔ اگر ایک تجویز پیش کرے اور دوسرا تائید کرے تو یہ اظہار محبت کی بہترین صورت ہے۔
اتار چڑھاؤ فطری بات ہے:زندگی کا رنگ و آہنگ ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ خارجی حالات سے داخلی زندگی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی چاہے کہ شادی کے ابتدائی زمانے میں جو رنگینی اور گرم جوشی تھی وہی سدا قائم رہے تو یہ مشکل بات ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محبت کے طور طریقے کچھ نہ کچھ ضرور بدل جاتے ہیں اور پہلے کے مقابلے فرق آجاتا ہے۔ اس فرق کے معنی محبت میں کمی نہیں بلکہ انداز کی تبدیلی ہے۔ شوہر اور بیوی کی زندگی ماہ و سال کی گردش کے ساتھ کتنے ہی مرحلوں سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ عفوان شباب کا زمانہ، شادی کے بعد کا دور، والدین بن جانے کا مر حلہ اور آخر میں دادا، دادی اور نانا، نانی کی شکل میں بزرگانہ حیثیت اختیار کر جانے کی منزل۔ یہ سب باہمی محبت کے اعلان و اظہار کے مختلف طور طریقے کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ زندگی کا فطری عمل ہے۔
شوہر اور بیوی میں اگر زندگی کے نشیب و فراز کاصحیح ادراک ہو تو وہ ہر دور میں خوش و خرم رہے ہیں۔ محبت، جوانی میں بھی بوڑھی ہو سکتی ہے اور بڑھاپے میں بھی جو ان رہ سکتی ہے۔ اس کا انحصار انسان کی سوچ اور طرز عمل پر ہے۔
الزام نہیں، ایثار:ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھنا اور اپنی پریشانی کا سبب دوسرے کو قرار نہ دینا بڑی اہم بات ہے۔ زندگی میں مشکل حالات کا بھی سامان کرنا پڑتا ہے۔ مالی مشکلات، حادثات، بیماریاں اور ہزار قسم کی پریشانیاں انسان وک لاحق رہتی ہیں۔ اگر شوہر اور بیوی دونوں مل جل کر مسائل کا سامنا کریں تو جلد اور بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔ لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب زندگی انسان کو کسی آزمائش میں ڈالتی ہے تو وہ پریشان ہو کر ایک دوسرے کو مورد الزام قرار دیتے ہیں۔ یہ دراصل سچائی اور مقابلے سے فرار کی ایک صورت ہوتی ہے۔ الزام تراشی کے بجائے ایثات کا جذبہ بیدار کرنا چاہیے۔، عفو اور در گزر کی صفات کو اجا گر کرنا چاہیے۔
یا درکھیں ….! خوشیاں بازار میں دکانوں پر نہیں ملتیں بلکہ باہمی محبت اخلاق اور ایثار کے ذریعےگھر کے اندر ہی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ گھر مکان کے اندرہوتے ہیں باہر سے جو درو دیوار نظر آتے ہیں وہ مکان کی علامات ہیں۔ ان دیواروں کے اندر جو ہے وہ آپ کا گھر ہے۔ سچی خوشی اور مسرت یہیں حاصل ہو سکتی ہے۔ جو لوگ زندگی کی خوشیاں گھر کے باہر تلاش کرتے ہیں وہ عقل مند نہیں ہوتے۔
بشکریہ ماہنامہ روحابی ڈائجسٹ فروری2022