اشفاق احمد کی لازوال تحریریں
(قسط نمبر 1)
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اشفاق احمد کی لازوال تحریریں)اردو کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، نثر نگار اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے، انہوں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر کئی افسانے لکھے اور بعد میں وہ تصوف کی طرف مائل ہو گئے۔ اردو ادب میں کہانی لکھنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تھا وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔ اشفاق احمد اپنے مخصوص انداز میں قصے اور کہانیاں سناتے ہیں۔ ذیل میں اشفاق احمد کے قلم سے مختصر مگر پُر اثر کہانیاں قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
اپنا دکھ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔اپنا دکھ۔۔۔تحریر۔۔۔اشفاق احمد)صبح ہوتے ہی بیٹے نے ملازمہ کے ہاتھوں ایک چٹھی دیکر اپنی والدہ کے پاس بھیجا.. چھٹی میں لکھا تھا۔ امی جان ! کل آپ ہمارے گھر آئیں اور ہمارے بیٹے عاصم کو لیکر چلی گئیں۔ اگر ہم موجود ہوتے تو شاید اُسے آپ کے ہمراہ جانے نہ دیتے کیونکہ وہ ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہے، اس کے بغیر ایک دن گزارنا ہمارے لئے محال ہے۔ وہ نہیں تھا تو کل شام کا کھانا بھی کھایا نہ جا سکا۔ رات میں اس کی امی اور میں سونہ سکے۔
ملازمہ کو بھیج رہا ہوں ہمارا بیٹا لوٹا دو۔“ ماں نے اپنے پوتے کو لوٹادیا۔ مگر ساتھ میں ایک چھٹی بھی دی۔ جس میں لکھا تھا۔ تمھیں اپنے بیٹے سے دوری کا کس قدر احساس ہوا۔ اب تمہیں معلوم ہوا ہو گا کہ بیٹے کی جدائی کا غم کیا ہوتا ہے۔ اپنی شادی ہو جانے کے بعد تم نے ہمارا چہرہ بھی دیکھنا گوارا نہ کیا۔ تمہارا ایک دن میں یہ حال ہوا ہے …. ذرا سوچو! تم مجھ سے دس سال سے جدا ہو،میرا کیا حال ہو رہا ہو گا۔۔۔!!
فرق
دونوں بھائیوں نے جب ایک دوسرے کی بغل میں مکانات بنائے تو ایک نے تین منزلہ عمارت کھڑی کر دی اور دوسرا بھائی تین کمروں پر مشتمل سادہ سامکان بڑی مشکلوں سے بنا سکا۔ یوں تو دونوں بھائی ایک ہی محکمہ میں کلرک کے عہدے پر فائز تھے … فرق صرف ٹیبل کا تھا۔
نابینا مسافر
وہ جس راستے پر چل رہا تھا خود نہیں جانتا تھا کہ وہ صراط مستقیم ہے یا پھر گمراہی کا راستہ ۔ اسے راہ میں ایک شخص ملا بھی تھا۔ اس نے یہ کہہ کر اسے اپنے ساتھ لیا تھا کہ تم راستہ بھول گئے ہو۔ آؤ میں تمہیں تمہاری منزل تک پہنچادوں۔ بے چارہ نابینا مسافر کرتا بھی کیا وہ تو اپنے راستے کے نشانات خود نہیں دیکھ سکتا تھا۔ چپ چاپ اس کے پیچھے ہو لیا۔ راستہ چلتے چلتے جب منزل قریب آگئی تو پتہ چلا کہ وہ جس راستہ سے چل کر آیا ہے وہ تو گمراہی کا راستہ تھا اور راہ میں جس شخص نے اس کی راہ نمائی کی تھی وہ خضر نہیں بلکہ شیطان تھا۔
وہ حواس کھو بیٹھا۔ حیف ! دنیا تو دنیا آخرت بھی تباہ ہو گئی۔ اب وہ پچھتا رہا تھا۔ اے کاش کہ وہ جاہل نہ ہوتا علم کی آنکھیں اس کے پاس ہو تیں تو وہ ان آنکھوں کی روشنی میں اپنی کامیاب زندگی اور آخرت کے لئے سفر کا آغاز صراط مستقیم سے کرتا۔ صحیح اور غلط سے واقف ہو تا سفر میں وہ نہ راستہ بھولتا اور نہ ہی کوئی بہکا سکتا ….
لیکن اب پچھتانے سے کیا حاصل؟ بہت دیر ہو چکی تھی زندگی کا سفر ختم ہو چکا تھا۔ اب تو جہنم اس کا انتظار کر رہی تھی !!
ایک ہی کشتی کے سوار فوزیہ تم آج بھی مجھے پریشان دکھائی دے رہی ہو ۔ کہو کیا بات ہے ؟“ میرے سرتاج میں …. میں آج بھی شاید خواب ہی دیکھ رہی ہوں کہ شہر کے مشہور و معروف دولت مند وکیل نے مجھ غریب اور مجبور لڑکی کواپنایا۔
نہیں فوزیہ …. یہ خواب نہیں حقیقت ہے تم جانتی ہو بیوی کا انتقال ہو جانے کے بعد میں نے دوبارہ شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کیونکہ مجھے اپنے بچوں سے بے انتہا محبت ہے اور میں اپنے بچوں کو ذہنی اذیت کا شکار ہونے نہیں دینا چاہتا تھا لیکن جب والدین کی ضد بڑھتی گئی تو مجھے مجبور ہونا پڑا اور میں نے تمہیں شریک حیات بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ تم حیران ہو کہ آخر میں نے تمہیں ہی پسند کیوں کیا ہے۔ فوزیہ وجہ یہ ہے کہ میں نے پڑوس
میں رہ کر تمہیں بچپن ہی سے اپنی سوتیلی ماں کے ہاتھوں پل پل دکھ جھیلتے اور اذیتیں اٹھاتے ہوئے دیکھا ہے ، تم ہمیشہ سلگتی اور بکھرتی رہی ہو۔ میں نے سوچا تم نے سوتیلے پن کا کرب سہا ہے تم اس درد کو محسوس کرتی ہو لہذا ان معصوم بچوں کو وہ دکھ کبھی نہیں دو گی جو تم نے جھیلے ہیں۔!! “
خدمت گار
بس اپنا توازن کھو چکی تھی۔ چالیس مسافر جان بحق ہو چکے تھے۔ بس کھائی میں گرتے ہی خدمت گار وہاں پہنچ گئے زندگی اور موت کے بیچ سانسیں گن رہے جسموں سے بچاؤ بچاؤ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ لیکن خدمت گار انھیں بچانے کی بجائے ان مردہ عورتوں کو اپنے کاندھوں پر لیے اسپتال کی جانب دوڑ رہے تھے جو زیورات سے لدی پھندی تھیں !!
بہت دیر کردی
جب بھی اسے کوئی نماز پڑھنے کی تلقین کرتا تو وہ یہی کہتا۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے دو۔ پھر داڑھی رکھ کر ایک مسجد کا کو ناسنبھال لوں گا۔ ملازمت سے سبکدوش ہوا تو اس نے بچوں کے لئے ایک عالی شان مکان بنانے کا ارادہ کیا تقریباً ایک سال کا عرصہ اپنی مرضی کے بام و در بنانے میں گزر گیا۔
آج مکان کا افتتاح تھا۔ برقی قمقموں سے عالیشان عمارت جگمگارہی تھی۔ اس کے قدم سجدہ شکر کے لئے مسجد کی جانب چل پڑے۔ اس نے اب طے کر لیا تھا کہ وہ کل سے اپنا زیادہ تر وقت مسجد میں گزارے گا اور اللہ تعالی کی عبادت گا۔
ابھی وہ مسجد کی سیڑھیاں چڑھ ہی رہا تھا کہ اس ضرور کی حرکت قلب بند ہو گئی اور مسجد کے باہر ہی اس کی روح پرواز کر گئی ! !
بهوش وانی
میں جب بھی اس طرف سے گزرتا جو تشی کو کتاب ہمیشہ ہی آدمیوں کے پیچ گھرا پاتا۔ وہ ہاتھوں میں لوگ کھینچی آڑی ترچھی لکیروں کو پڑھ کر لوگوں کو اُن کی کھڑے قسمت کے فیصلوں سے آگاہ کرتا تھا۔
ایک دن میں بھی اس بھیڑ میں چلا گیا لیکن میری باری آنے تک بہت رات ہو چکی تھی۔ وہ پورہماری جانب دیکھ کر کہنے لگا۔
تم لوگوں کی بھوش وانی“ میں کل بتاؤں گا کل تم ضرور آنا۔ میں تمہیں یہیں ملوں گا۔ دوسرے دن جب ہم وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ ہے دوسروں کی قسمت کی لکیروں کو پڑھنے والا خود اپنی سےقسمت کی لکیروں سے نا آشنا تھا۔
وہ تو آج صبح ہی اس دنیا سے کوچ کر چکا !! تبدیلی وہ غریبوں کی بستی میں پیدا ہوا تھا۔ بچپن بھی اس بستی میں گزرا لیکن جب بڑا ہوا تو خوش نصیبی سے سعودی عرب چلا گیا۔ دس سال بعد جب وہ وطن لوٹ کر اپنی بستی میں پہنچا تو اس کے منہ پر سفید رومال تھا اور وہ پیشانی پر بل ڈالے اپنے ہی بچپن کے ساتھیوں سے ان کا تعارف پوچھ رہا تھا۔
جنازه
وہ اردو زبان کا مشہور و معروف محقق ادیب شاعر تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں اردو زبان و ادب کی ترقی اس کی اشاعت اور مادری زبان کی اہمیت اور مارچ ضرورت پر سینکڑوں مقالے لکھے تھے۔ ایک دن اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کی حادثاتی موت کے دو ماہ بعد ان کے فرزندوں نے اپنے والد کی کتابوں کا اثاثہ باہر نکالا۔ کتابوں سے کئی الماریاں پر تھیں پاس پڑوس کے لوگ کتابوں کی الماریوں کے اطراف ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور ان کے بچے اس اثاثہ کو کباڑی کی دکان پر لے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ اثاثہ اب ان کے کسی کام کا نہ تھا کیونکہ ان کی پوری تعلیم انگلش میڈیم سے ہوئی تھی۔ !!!!
خود شناسی
کانٹا کہہ رہا تھا میں بظاہر بہت چھوٹا ہوں لیکن بہت طاقتور ہوں میری فطرت میں چھنا ہے میں کسی بھی شئے کو تکلیف پہنچا کر اسے مٹا سکتا ہوں۔ یہ پھول، یہ شاخ، یہ درخت سب میرے نزدیک حقیر و کمتر ہیں۔ ایک دن اس نے جس شاخ پر جنم لیا تھا ا سے ہی چھ کر تکلیف دینے لگا لیکن اُسے مٹانے کی کوشش میں وہ خود ہی زمین پر آرہا۔
تب اُسے معلوم ہوا کہ درخت تو بڑا تناور ہے وہ وہ شاخ جس پر اس نے جنم لیا تھا اب بھی سر سبز و۔۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2019