اعلیٰ قرآن یافتہ مائیں
تحریر ۔۔۔ اظفر الحسن
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اعلیٰ قرآن یافتہ مائیں ۔۔۔ تحریر ۔۔۔ اظفر الحسن)ہماری مائیں “قرآن پڑھی” مائیں تھیں، جو سکول کالج نہیں گئی تھیں، قرآن بھی کسی مسجد کے ملاں جی سے نہیں پڑھا تھا، گھر ہی کی کسی بڑی بوڑھی سے “قرآن یافتہ” اور تہذیب یافتہ اور تربیت یافتہ ہوتی تھیں۔۔۔ جن کو صبر کے اصلی مفہوم کا علم تھا، جن کو اپنے خاوند کی محبت میں اس سے ڈرنا بھی آتا تھا اور خدمت کرنی بھی۔
عام گھروں کے “ابا جی” کا جب گھر آنے کا وقت ہوتا تو ہر گھر میں اک افراتفری ہوتی۔ بچے پتنگ اڑاتے چھت سے نیچے اتر آتے، گلیوں میں کھیلتے بچے کھیل چھوڑ کر گھروں میں جا دبکتے۔۔
ماوؑں کے لئے یہ وقت بڑا بھاری ہوتا تھا۔ تیاریاں ایسے ہو رہی ہوتیں جیسے کوئی مہمان پہلی بار کسی کے ہاں آ رہا ہو ۔۔۔اُلٹے توّے کی تازہ روٹی ، تازہ سالن، اچار، چٹنی، مربہ، مکھن، سلاد سب ساتھ ساتھ ۔۔۔ روٹیوں کا پٙرنا دُھلا ہوا نرم، چھابی صاف ستھری ۔۔۔ کھانے سے پہلے خاوند کے ہاتھ دھلوانا۔ کھانے شروع ہونے سے پہلے پانی دسترخوان پر رکھنا، بہترین بوٹیاں ابا جی کے لئے ۔۔۔ پھل کاٹ کر، سجا کر رکابی میں رکھنا ۔۔۔ میٹھا، گُڑ کا زردہ ۔۔۔ اور اس سب کے دوران احتراماً اپنے میاں سے آنکھ نہ ملانا ۔۔۔
گرمی بھلے پچاس ڈگری ہو چادر میں ہی لپٹی رہتی تھیں ، بچوں نے بھی کبھی ان کو ننگے سر نہ دیکھا تھا۔ ان بچوں نے کبھی اپنی ماں کو سوتے نہ دیکھا ۔۔۔ ان کے جاگنے سے پہلے جاگتیں ۔ ان کے سونے کے بعد سوتیں ۔۔۔
پنجیری کی جگہ دیسی گھی کی پنیاں اس لئے ایجاد ہوئیں تھیں کہ بچے ہاسٹلز میں رہنے لگے تھے ۔۔۔ ہاسٹل میں جس مرضی کمرے میں چلے جائیں ماوؑں کی سوغاتیں ہی سوغاتیں۔ السی کے لڈو, پتیسے۔ پنیاں ۔۔۔
وہ “قرآن پڑھی” ماؤں کا آخری دور تھا ۔
تاریخ نے اسلام کی سینکڑوں سالوں کی تہذیب اور تربیت
ان” اُن اپڑھ” عورتوں کی جھولی میں ڈال دی تھی ۔۔۔ جن کی وفا آسمانی دلیل کی مانند تھی ، جن کی حیاء فاطمہ کی چادر کا اثر اوڑھے رکھتی تھی ۔۔۔ جن کی خدمت ۔۔۔ سب سسرالیوں کا مشترکہ حق ہوا کرتی تھی ۔۔۔
وفا کی، حیا کی، تہذیب کی آخری علامت ایسے رخصت ہوئی کہ کوئی بچہ امتحانات کی تیاری میں مصروف رھا تو کوئی روزگار یا کاروبار میں مصروف رھا۔۔۔
کسی نے بیرون ملک جانا ھے اور کوئی اپنے دوستوں کے ساتھ مصروف ھوگیا۔۔۔ کسی کو ٹھیک سے پتہ بھی نہ چل سکا کہ سینکڑوں سال کی تہذیب ہمارے ہاتھوں خاموشی سے قبر میں اتر گئی ۔۔۔
اور پھر ہم ٹنڈ منڈ میکڈولنڈز اور برگر تہذیب میں ڈھل گئے ۔ فاسٹ فوڈ کے فیور میں مبتلا ہو گئے۔ مغرب کے پراپیگنڈہ کے زیر اثر اپنی ہی بیگم کو پارٹنر بنا لیا ۔۔۔ گاڑی کا دوسرا پہیہ سمجھ لیا یہ جانے بغیر کے دو پہیئے تو سائیکل کے ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی ایک ڈائریکشن وہیل ہوتا ہے اور دوسرا ڈرائیونگ وہیل ۔۔۔
“ماما” ان دنوں ماں کو نہیں ماں کے بھائی کو کہا جاتا تھا۔ “امی جی” بہت ہی پیار کا لفظ تھا شاید وہ بھی ان امیوں کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا۔۔۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان ماؤں کو جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین محلوں میں سنبھال لے اور ہمیں معاف فرما دے ۔۔۔
ہم اس امرت دھارے سے محروم ہو کر کہیں کے نہیں رہے۔۔۔😞😞😔
منقول