البرٹ آئنسٹائن ولیم ہرمین کے ساتھ ہوئی گفتگو سے اقتباس
تحریر۔۔۔موسیٰ پاشا
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ البرٹ آئنسٹائن ولیم ہرمین کے ساتھ ہوئی گفتگو سے اقتباس۔۔۔ تحریر۔۔۔موسیٰ پاشا )سکول نے مجھے فیل کیا اور میں نے سکول کو ہی فیل کردیا. اس سکول نے مجھے بور کردیا تھا. اس کے ٹیچرز ایسے برتاؤ کرتے تھے جیسے وہ کوئی سارجنٹ ہوں. میں جس چیز کے بارے میں جاننا چاہتا تھا اسی کے متعلق سیکھنا چاہتا تھا، لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں امتحان کے حساب سے سیکھوں . سکول میں جس چیز سے سب زیادہ میں نفرت کرتا تھا وہ ان کا آپس میں مقابلہ بازی (Competition) کرنے کا نظام ہے، خاص کر سپورٹس. ان چیزوں کی وجہ سے میں ان کے قابل نہیں تھا. اور انہوں نے کئی بار مجھے سکول چھوڑ دینے کا مشورہ دیا.
یہ میونخ میں ایک مسیحی سکول تھا. میں سمجھتا ہوں کہ میری علم کے لیے پیاس کا گلا میرے ٹیچرز نے ہی گھوٹ دیا تھا. ان کا پیمانہ امتحانات میں صرف اچھے گریڈز لانے تک محدود تھا . ایک استاد نوجوانوں کی صلاحیتوں کو ایسے مقابلہ بازی کے سسٹم میں رہتے ہوئے بھلا کیسے سمجھ سکتا ہے؟ بارہ 12 سال کی عمر سے میں نے انتظامیہ (اتھارٹی) کو مشتبہ سمجھنا شروع کردیا تھا اور اساتذہ پر بھروسہ کرنا ترک کردیا.
جرمن فزکسٹ ساینٹسٹ
البرٹ آئنسٹائن
ولیم ہرمین کے ساتھ ہوئی گفتگو سے اقتباس
تحریر: Musa Pasha