Daily Roshni News

اللہ کا رنگ۔۔۔تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب۔۔۔قسط نمبر2

آج کی بات

اللہ کا رنگ

تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔آج کی بات۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)

صبغة الله و من احسن من الله صبغة

اللہ کا رنگ اور اللہ کے رنگ سے اچھا کس کا رنگ ہے ؟“ (البقرة: ۱۳۸)

اس آیت سے الوژن کی نفی ہوگئی۔

جب آدم سے نافرمانی ہوئی تو جنت سے نکال دیئے گئے۔ دنیا میں آکر دیکھا کہ یہاں تو کوئی چیز بے رنگ نہیں۔ اب جتنی زیادہ رنگوں میں دلچسپی بڑھی ، اسی مناسبت سے کیا ہوا؟

. حاضرین: اصل رنگ بھول گئے۔

نافرمانی، نافرمانی، نافرمانی ہوتی رہی۔ دوسری بات یہ کہ جنت میں کوئی چیز تبدیل نہیں ہو رہی اور دنیا میں آنے کے بعد ہر چیز تبدیل ہو رہی ہے۔ درخت وہ رنگین، پھول ،

کپڑے، کھانے پینے ، مخلوقات سب رنگین۔ اصل رنگ کہاں گیا ؟

حاضرین: ہم بھول گئے۔

بھول نہیں گئے ، ترک کر دیا، اس کو چھوڑ دیا، نافرمانی ہوئی۔ جب اس رنگ کو ترک کر دیا تو آواز آئی۔ جنت سے نکل جاؤ یعنی جنت میں الوژن نہیں ہے، دھوکا نہیں ہے، قریب نظر نہیں ہے لہذا جہاں فریب نظر ہے ، وہاں چلے جاؤ۔ بتائیے ، ابا آدم کہاں گئے ؟

پھر ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو

چاہو کھاؤ مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے۔“ (البقرۃ: ۳۵)

سامعین ! بتائیے کہ ظاہر دنیا میں ، کپڑوں میں، دیواروں میں کوئی شے بے رنگ ہے ؟

رنگ کا مطلب ہے کہ ہر رنگ الگ الگ ہو گا ، نہ یہ لال ہو گا نہ یہ سفید ہو گا۔ پھلوں میں

رنگ ہو گا، دیواروں میں رنگ ہو گا، کپڑوں میں رنگ ہو گا، اندر باہر اعضا میں رنگ ہو گا۔

صبغة الله ومن احسن من الله صبغة

اب اللہ کا رنگ کیا ہے ؟ اللہ کا رنگ تو آپ، ہم ، سب بھول گئے۔

نے رنگوں کو اور رنگوں کی تبدیلی کو دیکھا تو ان کے ذہن میں کیا آیا؟

حاضرین: رنگ بدل رہے ہیں۔

جو رنگ نظر آرہا ہے بس وہ رنگ ہے۔ یہ نیلا رنگ ہے۔ نیلے کے نیچے کتنے رنگ ہیں، وہ غائب ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ طرز دھوکے کی ہے، پریشانی کی ہے، شک کی ہے،

بے یقینی کی ہے یا یقین کی ہے ؟

حاضرین : بے یقینی کی ہے۔

جب ہم یہاں رنگوں کی تبدیلی دیکھتے ہیں تو ہماری زندگی یقین ہے یا الو ژن ( بے یقینی ) ؟

حاضرین: بے یقینی ہے۔

تو اب ہماری پوری زندگی بھی بے یقینی ہے۔ ایک دن کا بچہ جب دس دن کا ہوتا ہے، دس دن آپ کو نظر نہیں آتے ۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ یہ دس دن کا بچہ ہے؟ بچہ ہے وہ

لیکن اس کا ایک دن تبدیل ہو کر اس کے اوپر دس دن کی چھاپ پڑگئی۔ ٹھیک ہے ؟ شک سے الوژن پیدا ہوا۔ یہ نہیں ، یہ ہے ۔ یہ نہیں ، وہ ہے۔ نتیجہ کیا نکلا؟

حاضرین: شک ، بے یقینی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ اصل رنگ بھول گیا۔ اصل رنگ ذہن میں آہی نہیں رہا۔ یہ وہ غلطی ہے جو جنت میں ہوئی کہ یقین کی دنیا الوژن میں بدل گئی۔ جب یقین کی دنیا الو ژن میں بدل

گئی تو جنت کا وہ رنگ ہی نہیں۔ جنت کا اصل رنگ بھول کے خانے میں گم ہو گیا۔

اس بات کو پھر سمجھئے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ساری جنت تمہاری ہے لیکن ایک درخت

ہے، ایک درخت، اس کے قریب نہیں جانا یعنی؟ یقین کو نہ توڑنا۔

جب حکم عدولی ہوئی تو یقین الوژن بن گیا۔

لال ہیں، پہلے ہیں، کالے ہیں، کیسے ہیں؟ ایک آدمی ہے، اس کا اصلی رنگ سفید ہے۔ اب اس میں دس رنگوں کی تہ ہے۔ اس کو کیا کہیں گے ؟ حاضرین : اصلی رنگ سفید ہے لیکن الوژن نظر آرہا ہے۔

الوژن نہیں کہیں گے ۔ وہ کہیں گے کہ نیلا ہے۔ جو دس گیارہ رنگ اوپر نیچے آگئے، اس سے کیا ہو گا ؟ ذہن نفی ہو جائے گا۔ کچھ سمجھ میں آیا یا آگے عرض کروں؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا، رنگوں میں سب سے اچھا رنگ اللہ کا ہے۔ جس چیز میں رد و بدل ہوتا ہے، وہ سب سے اچھا نہیں ہوتا۔ اگر اچھا رنگ ہے تو وہ اچھا ایک ہے۔ سفید اگر رنگ ہے تو وہ سفید ہی ہے۔ سفید رنگ کو دیکھ کر آپ سرخ نہیں

کہیں گے ، نیلا پیلا نہیں کہیں گے ، کیا کہیں گے ؟

حاضرین: سفید کہیں گے

اب اس کے اوپر نیلا رنگ کر دیں۔ اب کیا کہیں گے ؟

حاضرین: نیلا کہیں گے ۔

نیلا کہیں گے ، سفید کہاں گیا؟

حاضرین: چھپ گیا۔

نفی ہو گیا، آپ اس کو بھول گئے ، چھوڑ دیا حالاں کہ رنگ سفید موجود ہے لیکن جب

اس میں نیلا رنگ ہوا تو آپ نے کیا کہا ؟

حاضرین: نیلا نظر آرہا ہے۔

نیلا آپ کو نظر آرہا ہے، کیا وہ الوژن نہیں ہے؟ اس کے اوپر آپ نے ایک اور

رنگ ڈال دیا۔ یہ الوژن کی تہ جم گئی۔ جب آدم اس درخت کے قریب چلے گئے اور انہوں جب نیلے رنگ کو اصل رنگ پر ترجیح دے دی پھر کیا ہوا ؟

جنت میں تبدیلی نہیں ہے۔ جنت میں رنگ کون سا ہے؟

صبغة الله – اللہ کا رنگ

اور اللہ کے رنگ میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی۔

آپ یہ بات سمجھے ؟

رنگوں کی دنیا سے آزاد ہو جائے۔ رنگوں کی دنیا سے آزاد ہونے کا مطلب ہے کہ رنگ زمین کی تخلیق ہے اور جو اللہ کا رنگ ہے ، صبغة الله – وہ اللہ کا رنگ ہے۔ جنت میں ابا آدم سے جو نافرمانی ہوئی، وہ یہ کہ اللہ کے رنگ کو نظر انداز کر کے الو ژن رنگ قبول کر لیا۔ لوگ سورج میں زیادہ رہتے ہیں تو کالے ہو جاتے ہیں۔ کوئی بات نہیں، سورج سے نکل جائے، کچھ عرصہ سائے میں رہنے ، سفید ہو جائیں گے ۔ تغیر ہے۔ رنگ میں تغیر ہے۔

اللہ کے رنگ میں تغیر نہیں ہے۔

علاج یہ ہے ۔ جتنا آپ اللہ کا ذکر کریں گے اور اس غلام غلطی کی معافی چاہیں گے ، اس

مناسبت سے صبغة اللہ سے آپ قریب ہو جائیں گے

کسی کو سوال پوچھنا ہے؟

سوال اس لئے نہیں پوچھنا کہ آپ ابھی تک اس بات کو پوری طرح سمجھے نہیں۔ گھر

جائیں، بار بار دہرائیں، بار بار دہرائیں پھر یہ بات آپ کی سمجھ میں آجائے گی، انشاء اللہ ۔

Loading