Daily Roshni News

الگ گھر۔۔۔ مصنفہ۔۔۔۔ ٹی۔این

الگ گھر

مصنفہ۔۔۔۔ ٹی۔این

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ الگ گھر۔۔۔ مصنفہ۔۔۔۔ ٹی۔این)یقیناً یہ آج کے دور کا حساس ترین موضوع ہے،جس نے گھروں کے گھر متاثر کیے۔ میں بھی آج اس پر اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا چاہوں گی۔

پہلے میرے خیال سے یہ ایک سراسر غلط قدم تھا،لیکن پھر میں کچھ ایسی خواتین سے ملی،جنہوں نے جوائنٹ فیملی سسٹم کے اندرونی مسائل سے مجھے آگاہ کیا۔

میری ایک دوست جو جوائنٹ فیملی سسٹم کے حق میں تھی،شادی کے بعد جب الگ ہوئی تو میں نے پوچھنا ضروری سمجھا۔

بتاتے ہوئے وہ رو دی کہنے لگی، میری دو نندیں تھیں ساس سسر اور تین دیور تھے ایک دیور نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی ایک نند کی شادی قریب میں ہی کہیں ہوئی تھی، آئے دن اس کا شوہر بھی آیا رہتا تھا، مجھے اپنی ساس اور نندوں سے بہت پیار تھا انہیں بھی میرے سے بہت لگاؤ تھا سب ٹھیک چل رہا تھا، لیکن پھر میرے دیور کی مجھ پر نظر خراب ہونے لگی، ایک دیور جو کنوارا تھا، بہانے بہانے سے اوچھ حرکتیں کرنے لگا، دوسرا دیور کبھی میں کمرے میں لیٹی ہوتی، تو گھس آتا تھا کبھی کسی کام سے کبھی کسی کام سے، مجھے کہتے ہوئے بڑی شرم آرہی ہے، لیکن اس کی بھی نظر خراب ہو چکی تھی۔ میرے سسر زیادہ بوڑھے نہیں تھے۔ جب میری ساس کبھی گھر نہ ہوتی، تو میرا ہاتھ پکڑ لیتے تھے، یا پھر، سب فضول میں ہی گھورتے رہتے۔ ان سب چیزوں سے چھٹکارا پانے کے لیے میں نے الگ گھر کا مطالبہ کیا۔ آؤٹ آف فیملی شادی ہونے کا یہی نقصان ہے۔بھابھی بہو کے لیے نظر خراب ہوتے دیر نہیں لگتی۔ میں جانتی ہوں، معاشرے میں الگ ہونے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن مجھے میری عزت کی خاطر یہ سب کرنا پڑا۔ اس سے پہلے کہ مجھ پر بدکاری کا یا کوئی اور الزام لگتا۔ اور میں بدنام ہوجاتی۔ یہ سب بہت ضروری تھا۔ خدا جانتا ہے اس کے علاوہ دل میں کسی کے لیے کوئی بغض نہیں۔

یہ اور اس جیسے اور بھی کچھ واقعات دیکھنے سننے کو ملے،جنہیں دیکھ کر یقین کرنا مشکل تھا،کہ ایسا بھی ہوتا ہے۔ ہم یعنی کہ معاشرہ صرف بظاہر چیز کو دیکھتا ہے اندرونی طور پر کیسے کیسے مسئلے ہوتے ہیں۔ ہم جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے،

اس کے علاوہ کچھ ایسی خواتین بھی تھیں، جنہوں نے نا سمجھی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ سب شوہر کو بتایا، نتیجتاً ان پرطلاق کا دھبہ لگ گیا یاپھر ہر وقت لڑائی جھگڑا رہنے لگا۔

کچھ کے سسرال والے بد نظر نہیں تھے مگر پھر بھی وہ اسے مسئلہ بنا کر الگ ہو گئیں

کچھ ایسے سمجھدار مردوں کے بارے میں بھی پتہ چلا جو اس مسئلے کو پہلے سے ہی سمجھ گئے تھے ان کی بیگمات کو کچھ خاص تگ و دو نہیں کرنا پڑی

پرائیویسی کا ڈسٹرب ہونا یا زیادہ لوگوں کی وجہ سے کام کا دباؤ ہونا ایک الگ بات ہے اس کے علاوہ جوائنٹ فیملی کے فائدے بھی بہت ہیں مگر ہر بار الگ گھر کے مطالبے کو غلط گردانا جائے درست نہیں۔

معاشرہ صرف یہ دیکھتا ہے فلاں بہو فلاں عورت سے ساس برداشت نہیں ہوتی۔ یا پھر ساس نے نہیں رکھا۔مگر اصل بات کچھ اور ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مرد پاگل نہیں جو ان  نام نہاد باتوں کی وجہ سے الگ ہو جائے بعض اوقات وہ سب جانتے بوجھتے کچھ نہیں کہہ پاتا کچھ نہیں کرپاتا بس خاموشی سے ایک طرف ہو جاتا ہے کبھی عزت کی وجہ سے کبھی پردا ڈال کر اور کبھی مان رکھ کر کوئی گلہ کوئی شکوہ کیے بغیر۔

آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

بتا کر جائیے گا۔

Loading