Daily Roshni News

انسانی دماغ کا ارتقاء:تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر محمد طارق صاحب

انسانی دماغ کا ارتقاء: انسان اور چیمپنزی کے جینوم میں ایک فیصد فرق کا مغالطہ اور اس کی تصحیح

تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر محمد طارق صاحب

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر محمد طارق صاحب)انسان اور چیمپنزی ارتقائی طور پر قریبی رشتہ دار ہیں۔ اس حوالے سے عموماً یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ دونوں سپی شیز کے ڈی این اے میں صرف ایک فیصد فرق پایا جاتا ہے (3 ارب نیوکلئیو ٹائیڈز کا 1 فیصد)۔ کیا دونوں کے ذہنی استعداد میں جتنا فرق ہے وہ ڈی این اے میں محض ایک فیصد کے فرق سے ممکن ہے؟

پہلا مغالطہ تو یہ ہے کہ دونوں سپی شیز کے ڈی این اے میں فرق ایک فیصد نہیں بلکہ تقریباً 6 فیصد ہے۔ دراصل ڈی این اے کے درمیان فرق کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کن کن تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہیں۔ مثلاً جب ہم سیدھا سیدھا comparison کرتے ہیں اور صرف نیوکلئیو ٹائیڈز کی موجودگی یا غیر موجودگی کو مد نظر رکھتے ہیں تو اس میں وہ ڈی این اے اگنور ہو جاتا ہے جس کی چیمپینزی میں صرف ایک کاپی ہے جبکہ انسان میں متعدد copies ہیں (لیکن موجود تو بہرحال دونوں میں ہی ہے)۔

تاہم یہ بات اتنی اہم نہیں ہے کہ دونوں سپی شیز کے ڈی این اے میں فرق کتنا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جتنا فرق ہے اس کا impact کتنا ہے۔ اس سلسلے میں انسان کے ارتقاء کے دوران ڈی این اے میں واقع ہونے والی چند تبدیلیوں کا ذکر کروں گا۔

چیمپینزی کی نسبت انسان کے دماغ کا حجم (volume) اور metabolic activity بہت زیادہ ہیں۔ اور یہی دونوں factors انسان کی بے مثل ذہنی استعداد کا سبب ہیں۔ تو پہلا سوال یہ ہے کہ ان دونوں تبدیلیوں (حجم اور metabolic activity) کیلئے جینیاتی سطح پر، یعنی ڈی این اے میں، کتنی تبدیلیاں ضروری ہیں اور کسی جینیاتی تبدیلی کا impact کتنا ہے؟

مائیکرو سیفلی (#microcephaly) کے مریضوں کو مقامی زبان میں شاہ دولے (یا دولے شاہ کے چوہے) کہا جاتا ہے۔ ان کا دماغ چیمپینزی جتنا ہی ہوتا ہے۔ بلکہ 1867ء میں جب کارل ووٹ نے پہلی بار مائیکرو سیفلی کے مریض دریافت کئے تو اس نے انہیں “Apes جیسے انسان” ہی کہا تھا۔ اس بیماری کا باعث بننے والے کچھ جینز میں سے کسی ایک، مثلاً ASPM جین، میں صرف ایک نیوکلئیو ٹائیڈ کی تبدیلی عام دماغ کو شاہ دولے کے دماغ میں تبدیل کرنے کیلئے کافی ہے۔ (اس حوالے سے مزید دلچسپی رکھنے والے احباب میری ٹائم لائن پر “کیا شاہ دولے واقعی بنائے جا سکتے ہیں؟” کے عنوان سے آرٹیکل تلاش کر کے پڑھ سکتے ہیں)۔ اس سے ایک نیوکلئیو ٹائیڈ کے impact کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

2009ء میں امریکی محققین نے انسانی دماغ کی اضافی metabolic activity کا سبب بننے والے جینز کی تحقیق کے دوران دریافت کیا کہ اس کی وجہ کوئی علٰیحدہ جینز نہیں ہیں بلکہ وہی جینز جو چیمپینزی کے دماغ میں متحرک ہیں وہ انسانی دماغ میں بھی متحرک ہیں۔ تاہم چیمپینزی کے دماغ کی نسبت انسانی دماغ میں ان جینز کا expression بہت زیادہ ہے۔ ان محققین کے مطابق اس زیادہ ایکسپریشن کی وجہ transcription factors کے جینز ہیں اور وہ بھی بہت کم تعداد میں۔ (بعض محققین کے مطابق ان کی تعداد دو یا تین ہے)۔

انسان کے ارتقاء کے دوران نئے جینز بنے بھی ہیں اور غائب (delete) بھی ہوئے ہیں۔ نئے بننے والے جینز میں ایک دلچسپ مثال سرخ pigments بنانے والے جینز red opsin کی ہے جن کی بدولت ہم سرخ رنگ دیکھنے کے قابل ہیں۔ یہ جین سبز pigments بنانے والے green opsin جین کی duplication (جو کہ ڈی این اے بننے کے دوران معمول کی غلطی ہے) کے بعد ایک میوٹیشن (تبدیلی) کے نتیجے میں بنا ہے۔ ان دونوں جینز کی اہمیت یہ ہے کہ ان کی بدولت انسان نے کچے اور پکے پھلوں میں فرق کرنا سیکھا۔

غائب ہونے والے جینز میں اہم مثال olfactory receptors جینز کی ہے جو ہمارے سونگھنے کی حس کے ذمہ دار ہیں۔ انسان میں ان کی تعداد تقریباً 350 جبکہ چوہوں میں 1200 ہے۔ چونکہ چوہوں کی نسبت انسان کا انحصار سونگھنے کی حس پر اتنا زیادہ نہیں ہے اس لئے ارتقاء کے دوران ان جینز کی deletion ہوئی تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی طرح MYH16 جین کے delete ہونے سے بالواسطہ ہمارے دماغ کے پھیلاؤ (حجم بڑھنے) کو فروغ ملا۔ یہ جین Apes میں بھاری بھر کم جبڑے بنانے کا ذمہ دار تھا۔ جبڑا چھوٹا ہوا تو دماغ پھیلنے کیلئے جگہ میسر ہوئی۔ یہ بات مدنظر رہے کہ کسی بھی جین کی deletion ڈی این اے بننے کے دوران محض ایک غلطی کے سبب ممکن ہے۔

اب آپ دیکھ لیں کہ انسان اور چیمپینزی کے ڈی این اے میں اگر صرف 1 فیصد فرق بھی فرض کر لیا جائے (جو کہ دراصل 6 فیصد ہے) تو کل تبدیلیاں 30 میلیئن سے زیادہ بنتی ہیں! یعنی تین کروڑ تبدیلیاں۔ ایک ایک تبدیلی کا impact کتنا ہے!

آداب

تحریر جناب ڈاکٹر محمد طارق صاحب

Loading