Daily Roshni News

انسان کی اصل نوری جسم ہے۔۔۔ تحریر۔۔۔ خواجہ شمس الدین عظیمی  صاحب۔۔۔قسط نمبر2

انسان کی اصل

 نوری جسم ہے

)قسط نمبر(2

تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی  صاحب

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔انسان کی اصل نوری جسم ہے۔۔۔ تحریر۔۔۔ خواجہ شمس الدین عظیمی  صاحب)کرتا ہے۔ جسے امر ، روح یا تجلی کہتے ہیں۔

واہمہ (جنریٹر نمبر 1)

جزیٹر نمبر 1 سے پیدا ہونے والا کرنٹ نہایت لطیف اور تیز رفتار ہے اس کی قوت (Potential) بھی نا قابل بیان حد تک زیادہ ہے۔ یہ اپنی تیز رفتاری کی بناء پر ذہن کو کائنات کے تمام گوشوں سے منسلک رکھتا ہے۔ رفتار کے تیز ہونے کی وجہ سے اس کرنٹ کا عکس انسانی دماغ کی اسکرین پر بہت دھندلا پڑتا ہے۔ اس ہی عکس کو واہمہ کہتے ہیں۔ تمام احساسات اور تمام علوم کی ابتداء واہمہ سے ہوتی ہے۔ جسے صرف ادراک کی گہرائیوں میں محسوس کیا جاتا ہے۔ واہمہ گہرا ہو کر خیال بن جاتا ہے۔ جزیٹر نمبر 1 سے پیدا ہونے والے کرنٹ کے دو حصے ہیں۔ ایک زیادہ طاقت کا حامل اور دوسرا کم طاقت رکھنے والا ۔ ایک ہی برقی رو پہلے تیز رفتار ہوتی ہے اور بعد میں اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ طاقتور یا تیز رفتار کرنٹ کا ئنات کا شعور یا کائنات کا ریکارڈ ہے اور کم طاقت کا حامل کرنٹ واہمہ کہلاتا ہے۔

خیال (جزیٹر (2) جنریٹر نمبر 2 سے بھی دو طرح کی برقی رو پیدا ہوتی ہے ایک منفی اور دوسری مثبت ۔ منفی لہر واہمہ میں داخل ہوتی ہے تو واہمہ خیال بن جاتا ہے۔ خیال واہمہ کی

تفصیلی صورت ہے۔ لیکن یہ بھی تصور سے پوشیدہ رہتا ہے۔ خیال پر مثبت کرنٹ غالب آجائے تو وہ تصور میں ڈھل جاتا ہے۔ خیال میں خدوخال پیدا ہو جائیں تو اسے تصور کہتے ہیں۔ تصور ایسا خاکہ ہے جسے نگاہ تو نہیں دیکھتی لیکن ذہن شکل وصورت کا احاطہ کر لیتا ہے۔

تصور (جزیٹر 3) جریٹر نمبر 3 کی برقی رو کا کام احساسات کی گہرائی ہے۔ یہ برقی روموج کی شکل رکھتی ہے۔ یعنی اس کی ایک حرکت اوپر کی طرف اور دوسری نیچے کی جانب ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ دو حرکات ، دو طرح کے احساسات ذہن کو عطا کرتی ہیں۔ اوپر کے رخ کی حرکت یا صعودی حرکت احساسات میں رنگینی ہے۔ اس حرکت میں تصور اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ آدمی بے اختیار عمل کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔ نزولی حرکت یا نیچے کی حرکت عمل یا مظاہرہ ہے۔

کائنات کا مجموعی علم ریکارڈ کی صورت میں موجود ہے۔ یہ ریکارڈ حرکت میں آکر واہمہ بن جاتا ہے۔ اس حرکت کو کرنٹ نمبر 1 کہا گیا ہے۔ کرنٹ نمبر 2 کی منفی لہر واہمہ کو خیال کی شکل وصورت ت عطا کرتی ہے اور خیال کے ذریعے تمام مخلوقات ایک رشتے میں بندھی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مخلوقات میں س تقاضے مشترک ہیں مثلاً بھوک، پیاس، رنج، غصہ،بقائے نسل کا جذبہ وغیرہ۔

 کرنٹ نمبر 2 کی مثبت لہر انسان کو اپنی نوع کے – تصورات سے آشنا کرتی ہے۔ کرنٹ نمبر 3 کا نزولی رخ احساسات میں ٹھوس پن ہے اور صعودی رخ احساسات میں رنگینی ہے صعودی رخ میں آدمی کے تمام احساسات جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر کے زمان و مکان سے آزاد ہو جاتے ہیں نزولی رخ میں آنکھ، کان، ناک، ہاتھ پاؤں کے ذریعے حواس کا مظاہرہ ہوتا ہے اور صعودی رخ میں بصارت ، سماعت، گفتار اور لمس کی صلاحیتیں اعضاء کے بغیر کام کرتی ہیں آدمی کے ذہن سے تینوں کرنٹ گزرتے ہیں اور وہ بیک وقت تینوں کیفیات میں سفر کرتا ہے لیکن جس کرنٹ کا عکس ذہن کی اسکرین پر گہرا ہوتا ہے، آدمی اسی کی خصوصیات میں خود کو متحرک دیکھتا ہے۔ اگر کرنٹ نمبر 3 پر کرنٹ نمبر 2 یا کرنٹ نمبر 1 کا (Sensation) غالب آجائے تو آدمی تصور، خیال اور واہمہ کی رفتار سے سفر کرنے لگتا ہے اور یہ تمام مخفی اطلاعات تصویری فلم کی صورت میں سامنے آجاتی ہیں۔ مراقبہ کی مشق سے کرنٹ نمبر 2 اور کرنٹ نمبر 3 کی طاقت بڑھنے لگتی ہے۔ طاقت بڑھنے سے مراد یہ ہے کہ دماغ کا ریسیور ان اطلاعات کو زیادہ بہتر وصول کرنے لگتا ہے۔

آپ پڑھ چکے ہیں کہ انسان کے اندر تین برقی کرنٹ کام کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر انسان کے اندر جو صلاحیتیں کام کرتی ہیں وہ تین دائروں میں مظہر بنتی ہیں۔ یہ تینوں کرنٹ محسوسات کے تین ہیولے ہیں اور ہر ہیولا مکمل تشخص رکھتا ہے۔ ہر کرنٹ سے انسان کا ایک جسم وجود میں آتا ہے۔ اس طرح آدمی کے تین وجود ہیں یا آدمی تین جسم رکھتا ہے۔

 ا مادی جسم ۔

 ۲۔ روشنی کا بنا ہوا جسم ۔

۳ ۔ نور سے بنا ہوا جسم۔

 یہ تینوں جسم بیک وقت متحرک رہتے ہیں۔ لیکن مادی جسم (شعور) صرف مادی حرکات کا علم رکھتا ہے۔ مادی جسم کے اندر لاتعداد افعال واقع ہوتے رہتے ہیں۔ پھیپھڑے ہوا کھینچتے ہیں، جگر کے اندر ہزار ہا عوامل بر سر عمل رہتے ہیں، دماغ کے اندر برقی رو کے ذریعے حیران کن کرشمہ جاری رہتا ہے۔ پرانے خلیات فنا ہوتے ہیں نئے خلیات بنتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اعمال کو ہمارا شعور محسوس نہیں کرتا اور نہ ہمارا شعوری اراده ان کو کنٹرول کرتا ہے۔ شعوری ارادے کے بغیر یہ اعمال خود بخود ایک ترتیب سے واقع ہوتے ہیں۔ ہمارے اندر روشنی اور نور کے جسم کام کرتے ہیں۔ لیکن شعور انہیں محسوس نہیں کرتا ۔ ماورائی کیفیات ایسی ہیں جن میں ہمیں روشنی کے جسم کا احساس ہوتا ہے۔ ان کیفیات میں ہمارا مادی جسم معطل رہتا ہے۔ اس کے باوجود ہم زندگی کا ہر فعل انجام دیتے ہیں۔ اس کیفیت میں روشنی کا جسم حرکت کرتا ہے۔ اس جسم کو ہیولا ، جسم مثالی بھی کہتے ہیں۔ اگر خیال کی قوت کو بڑھایا جائے تو جسم مثالی کی حرکات سامنے آجاتی ہیں۔ اور ہم جسم مثالی کو ارادے کے تحت استعمال کر سکتے ہیں۔ جسم مثالی کی رفتار مادی جسم سے ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہے۔ اگر خیال کی طاقت میں مطلوبہ اضافہ ہو جائے تو آدمی نور کے جسم سے متعارف ہو جاتا ہے۔ روحانی لوگ ریاضت و مجاہدہ کر کے روشنی اور نور دونوں میں سفر کرتے ہیں اور ان کی شعوری کیفیات روشنی کے جسم میں تحلیل ہو جاتی ہیں اور آدمی روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگتا ہے۔ یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ یہاں روشنی سے مراد وہ روشنی نہیں ہے جو ہمیں نظر آتی ہے بلکہ یہ اس روشنی کا تذکرہ ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔ اسی طرح جب شعوری کیفیات نورانی دنیا میں جذب ہو جاتی ہیں تو نور کا جسم بر سر عمل آ جاتا ہے۔ اس وقت آدمی نور کی شعاعوں کے ذریعے زمانیت اور مکانیت کو طے کر سکتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013

Loading