Daily Roshni News

انسان کی سب سے بڑی جیل اس کی سوچ ہے۔

انسان کی سب سے بڑی جیل اس کی سوچ ہے۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )انسان کی سب سے بڑی طاقت اُس کی سوچ ہے، اور سب سے بڑی کمزوری بھی۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ کچھ لوگ اسی محلے میں پیدا ہو کر، وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔

اور کچھ لوگ، اسی ماحول، انہی حالات میں پیدا ہو کر، دنیا فتح کر لیتے ہیں۔ فرق صرف اور صرف “سوچ” کا ہوتا ہے۔ ذہنی قید کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے پاس خیالات نہیں ہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم وہی سوچتے ہیں جو ہمیں بتایا گیا ہے، دکھایا گیا ہے، یا جسے معاشرہ قابلِ قبول سمجھتا ہے۔دراصل

ہم نے ذہنوں میں ایسی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیتیں۔ یہ دیواریں پتھر کی نہیں ہوتیں۔

بلکہ الفاظ، جملوں، اور ڈر سے بنی ہوتی ہیں۔ ہم میں سے کئی لوگ بڑے خواب دیکھنے سے گھبراتے ہیں۔ سوال اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر “نیا” سوچنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ ذہنی قید یہ ان الفاظ، روایات، نصیحتوں، اور خاموش سزاؤں سے بنتی ہے جو ہمیں بچپن سے سکھائی جاتی ہیں

“زیادہ مت بولو!”

“بس جو کہا جا رہا ہے، وہی کرو!”

“ایسا کبھی ہمارے خاندان میں نہیں ہوا!”

یہ سب چھوٹی سوچ کی اینٹیں ہیں جن سے بڑی دیوار بنتی ہے۔ کئی لوگ اپنی ہی ذات کے اندر قید ہیں۔ وہ خود سے بڑا سوچنے کی اجازت نہیں دیتے۔ جیسے کسی نے ان کے اندر ایک پہرے دار بٹھا دیا ہو جو کہتا ہے:

“بس اتنا ہی کافی ہے”

“زیادہ چاہو گے تو نقصان اٹھاؤ گے”

“جو ہے، اسی پر شکر کرو، خواب نہ دیکھو”۔

لیکن سوال یہ ہے کہ شکر اور خواب میں ٹکراؤ کیوں ہو؟ شکر کرنے والا بھی تو خواب دیکھ سکتا ہے۔

اپنے حال پر قناعت کرتے ہوئے بھی انسان اپنے کل کو بہتر بنا سکتا ہے۔

جب ایک بچہ سوال پوچھتا ہے، تو اسے “بدتمیزی” سمجھا جاتا ہے۔ جب نوجوان اپنے خواب بیان کرتا ہے تو اسے “فضول باتوں” کا شوق کہا جاتا ہے۔ اور جب کوئی لڑکی اپنے حق کی بات کرتی ہے تو اسے “باغی” کہا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں سوچنے والا ذہن خاموش ہونا سیکھ جاتا ہے۔ اور یہی خاموشی وقت کے ساتھ قید میں بدل جاتی ہے۔

ہم خود اپنی ذہنی قید کے قیدی ہوتے ہیں۔ اور یہی قید سب سے خطرناک ہوتی ہے کیونکہ اس کی زنجیریں نظر نہیں آتیں، صرف محسوس کی جاتی ہیں۔ کبھی غور کیا ہے؟ایک پرندہ اگر پنجرے میں پیدا ہو تو اُسے آسمان کی وسعت ایک افسانہ لگتی ہے۔ وہ پر نہیں مار پاتا، کیونکہ اس نے کبھی کھلی فضا دیکھی ہی نہیں۔

کچھ ایسا ہی حال ہم انسانوں کا بھی ہے۔ جو اپنے اردگرد کے ماحول، روایتوں، اور دوسروں کی رائے کے دائرے میں سوچتے ہیں اور پھر ساری زندگی وہیں گھومتے رہتے ہیں۔ یہی سوچ کی قید ہے اور یہی ترقی کی سب سے بڑی دشمن ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ دو دوست تھے، جو ایک ہی گلی میں رہتے تھے۔ اور دونوں بچپن سے ہی اکٹھے پلے بڑھے۔

احمد جو روزانہ ماں کے ساتھ سبزی لینے جاتا، اور یوسف ایک دکان پر کام کرتا۔ یوسف بھی اسی گلی کا تھا، وہ بھی مالی مشکلات میں پلا۔ لیکن احمد ہر وقت شکوے کرتا، میرے حالات اچھے نہیں، میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ جبکہ یوسف یہ سوچتا تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں میں بڑا بزنس مین بنوں گا۔ آج احمد اسی سبزی والی دکان پر کام کر رہا ہے۔ جبکہ یوسف ایک بزنس مین بن گیا ہے۔ اگر یہاں پہ دیکھا جائے تو صرف سوچ کا فرق ہے۔ احمد کی سوچ محدود تھی۔ وہ خود کو وہیں تک دیکھتا تھا جہاں وہ کھڑا تھا۔

وہ حالات کو دیوار سمجھ کر اس کو توڑنے سے ڈرتا تھا اور بڑے خواب دیکھنے سے بھی ڈرتا تھا۔ جبکہ یوسف کی سوچ آزاد تھی۔ وہ حالات کو سیڑھی سمجھ کر اگے کی جانب بڑھتا گیا، اور خوابوں کو حقیقت میں بدلا۔ اگر یہی سب احمد نے سوچا ہوتا کہ “میں بدل سکتا ہوں” اگر وہ شکوے چھوڑ کر سیکھنے لگتا، اگر وہ چھوٹے خواب چھوڑ کر بڑے خواب دیکھتا اور کچھ بڑا سوچتا تو آج وہ بھی یوسف کی طرح ایک کامیاب انسان بن چکا ہوتا۔

اسی طرح ایک دفعہ دو بہنیں جو کہ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہیں. چھوٹی بہن کا ماننا یہ تھا کہ وہ دیکھنے میں خوبصورت ہے اور ایجوکیٹڈ ہے اور وہ ایسے خاندان میں شادی کرے گی جو ہائی کلاس فیملی سے تعلق رکھتے ہوں. جہاں پہ رسم و روایات یا معاشرے کے لحاظ سے تنقید نہ کی جائے بلکہ اسے آزادی سے زندگی گزارنے دی جائے۔ جبکہ دوسری طرف بڑی بہن کا ماننا یہ تھا کہ ہم مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتیں ہیں

تو ہماری شادی بھی ہماری ہی طرح مڈل کلاس فیملی میں ہوگی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ بڑی بہن کی شادی مڈل کلاس فیملی میں ہوگی اور چھوٹی بہن کی شادی ہائی کلاس فیملی میں ہو گئی۔ اب یہاں پہ دیکھا جائے تو یہاں پہ دونوں ایک ہی گھر سے تعلق رکھتی ہیں ایک ہی گھر میں پلی بڑھی اور پرورش ہوئی ہے لیکن ان دونوں کی سوچ میں زمین اور آسمان کا فرق تھا۔ لیکن یہ صرف سوچ کی قید ہے۔

اگر سوچ چھوٹی ہو، تو زندگی بھی چھوٹی ہو جاتی ہے۔ اگر سوچ بڑی ہو، تو راستے خود بننے لگتے ہیں۔ سوچ، انسان کی سمت طے کرتی ہے۔ وہی سوچ، جو یا تو آپ کو قید کر دیتی ہے یا پرواز دے دیتی ہے۔

ان دو بہنوں کا فرق کچھ اور نہیں، صرف سوچ کا تھا۔ اور آخرکار، دونوں نے وہی پایا، جو انہوں نے سوچا تھا۔

خواب دیکھنا جرم نہیں، ان پر یقین نہ کرنا جرم ہے۔کبھی کبھی ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری زندگی میں روشنی نہیں۔

جبکہ اصل میں ہم نے اپنی کھڑکیاں ہی بند کر رکھی ہیں۔ سورج تو ہر روز نکلتا ہے، مگر ہماری اندرونی آنکھیں اندھیرے کی عادی ہو چکی ہیں۔ اسی طرح ایک چھوٹی سی سوئی بھی بڑے تالے کھول دیتی ہے۔ بالکل ایسے ہی ایک نیا، مختلف اور بظاہر معمولی خیال بھی زندگی کا دروازہ کھول سکتا ہے۔دنیا ہمیں قید نہیں کرتی، حالات ہمیں روکتے نہیں، اور لوگ ہماری کامیابی کے راستے میں دیوار نہیں بنتے۔

اصل دشمن ہماری اپنی “سوچ” کی محدودیت ہے۔

جب ہم اپنی سوچ کے خول سے باہر آتے ہیں، تب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آسمان صرف نیلا نہیں، بلکہ بے حد وسیع بھی ہے۔ آپ وہی بن جاتے ہیں جو آپ سارا دن سوچتے ہیں۔

محمد وقاص نے ایک دفعہ لکھا تھا:

“اگر آپ آزاد ہونا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی سوچ کو آزاد کریں۔”

انسانی ذہن کی سب سے بڑی جیل وہ ہے جس کے دروازے ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے بند کیے ہیں۔وہ ہے اپنی سوچ کی قید۔ اگر ہم خود کو یہ اجازت دے دیں کہ ہم “کچھ بھی بن سکتے ہیں”، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں روک نہیں سکتی۔ سوچ کی تبدیلی ہی اصل انقلاب ہے۔

احمد اور یوسف، بڑی اور چھوٹی بہنوں کی کہانیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ کامیابی اور ناکامی کا سب سے بڑا فرق صرف سوچ ہے۔ اگر ہم سوچنے کا انداز بدل لیں، تو راستے خود بخود بدل جاتے ہیں۔ جب ہم سوچ کی قید سے نکل کر ازاد سوچتے ہیں۔ تو ہم خود کو اہم سمجھنے لگتے ہیں۔ ہم دوسروں کی آنکھوں سے نہیں، اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ہم “کیا ہے” کے بجائے “کیا ہو سکتا ہے” پر غور کرنے لگتے ہیں۔

ہم صرف خواب نہیں دیکھتے، ان پر یقین بھی کرنے لگتے ہیں۔ زندگی تب ہی بدلتی ہے جب آپ خود بدلنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ سوچ کا آزاد ہونا صرف خواب دیکھنا نہیں، بلکہ ان پر یقین کرنا بھی ہے۔ جب ہم محدود سوچ سے باہر نکلتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم صرف نوکری کرنے والے نہیں، بزنس مین بن سکتے ہیں۔

مشق:

1: خود سے پوچھیں اگر میں کسی خوف، شرط یا رکاوٹ کے بغیر کچھ بھی بن سکتا، تو میں کیا بننا چاہوں گا؟

2: سوچ کا فرق کریں۔ احمد اور یوسف، یا دو بہنوں کی کہانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اردگرد دو لوگوں کا مشاہدہ کریں۔ دونوں کی زندگی میں فرق محسوس کریں؟ اگلا سوال خود سے کریں: “میں ان میں سے کون ہوں؟”

3: “آج میری سوچ کہاں محدود رہی؟ اور کہاں میں نے نئی راہ دیکھی؟”

جسم کی آزادی کے ساتھ ساتھ ہماری سوچ کی بھی ازادی ہونی چاہیے۔جب تک ہماری سوچ دوسروں کی رائے، پرانی روایات، اور خود ساختہ خوف کے تابع رہے گی۔ ہم کچھ نیا نہیں کر سکیں گے۔ لیکن جس دن ہم نے خود سے کہہ دیا کہ آج سے میں آزاد ہوں۔ اور میں اپنی سوچ کے مطابق سب کام سر انجام دوں گا۔ اسی دن زندگی کا نقشہ بدل جائے گا۔

Loading