اوراد و وظائف
سائنس اور نفسیات کی روشنی میں
تحریر۔۔۔ابن وصی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اوراد و وظائف سائنس اور نفسیات کی روشنی میں۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی )کیو ” Thank You”۔
یہ عمل 25 دن جاری رہا۔ پچیسویں دن دونوں بوتلوں کے پانیوں کے مالیکیولز کو کر سٹلز بنانے کے عمل سے گزارا گیا۔ نتائج حیران کن تھے۔ ڈسٹلڈ واٹر سے (جو خالص پانی تھا اور اس سے پہلے اس پانی سے بہت خوبصورت دل کش ڈیزائن کی حامل کرسٹل بنے تھے ) کرسٹل تو بن گئے لیکن انتہائی بد شکل، جبکہ نلکے والا پانی جس سے پہلے کرسٹل نہیں بنے تھے، اس پر تھینک یو لکھا ہوا تھا اور کئی لوگ 25 دن تک اس پانی کو دیکھ کر تھینک یو کہتے رہے تھے، اس پانی سے بہترین اور خوب صورت کرسٹل بن گئے تھے۔ اس کا واضح مطلب یہ لیا گیا کہ پانی جذبات اور کہی گئی باتوں کا بھی اثر لیتا ہے اور ویسی ہی ماہیت اپنا لیتا ہے۔ اچھی باتوں سے اچھی ماہیت اور بری باتوں سے بری…. اسی طرح جب پانی کے سامنے کسی بھی طرح کے منفی خیالات و جذبات مثلا ” تم بہت بُرے ہو، تم نے مجھے بیمار کر دیا، میں تمہاری مار دوں گا۔“ جیسے جملوں کا اظہار کرنے کے بعد پھر اس بوتل کے پانی کے کر شلز دیکھا گیا تو اس اندرونی نظام کا فقدان پایا گیا اور مالیکیول کی ساخت بگڑ چکی تھی۔
ڈاکٹر مساز و ایموٹو کی اس تحقیق کا لب لباب یہی ہے کہ انسانی مخیالات، جذبات اور الفاظ اثر رکھتے ہیں، اور یہ اثر ناصرف پانی بلکہ لوگوں کی زندگی اور شخصیت پر بھی ہوتا ہے… ڈاکٹر مساز و ایموٹو کہتے ہیں کہ ”نہ فقط انسانی سوچ و جذبات پانی کے مالیکیول اسٹرکچر (سالماتی ڈھانچے) پر اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ پانی بھی انسانی سوچ اور احساس پر اثر انداز ہوتا ہے۔“
ڈاکٹر مساز و ایموٹو کے مطابق ہر خیال ایٹم کےایک یونٹ کی طرح ہوتا ہے جس سے وائبریشن پیدا ہوتی ہے جس طرح ایٹم میں موجود الیکٹران وائبریشن پیدا کرتے ہیں، خیال بھی اسی طرح ایک یونٹ ہے خیال سے نکلنے والی لہریں لوگوں کے ذہن اور شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ مثبت اور اچھی لہریں مثبت اثر کھتی ہیں اور بڑے اور منفی خیالات کا
اثر منفی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مسارو ایموٹو نے خیال کے اس بنیادی یونٹ کو جاپانی زبان میں ”بادو Hado کا نام دیا ہے،جس کے معنی لہر کے ہیں۔
دعا اور ورد کے الفاظ کس طرح ہمارے ذہن اور جسم پر اثرات مرتب کرتے ہیں، سائنس اس بارے میں کیا کہتی ہے، آئیے ! تجزیہ کرتے ہیں…. انسانی جسم میں قدرت نے بیرونی خطرے سے دفاع کا احسن نظام رکھا ہے جسے ہمارا مرکزی نروس سسٹم کنٹرول کرتا ہے۔ ذہنی انتشار اعصابی نظام کو ضرورت سے زیادہ متحرک کر دیتا ہے جس سے ذہنی اور جسمانی توانائی بڑی مقدار میں ضائع ہوتی ہے، لہذا ایسے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جس سے ذہن اور جسم کو سکون میسر آئے۔ ذہنی و جسمانی مسائل کا آغاز بیشتر اوقات تشویش اور اضطراب سے ہوتا ہے۔
ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیز میں علیحدہ علیحدہ کی گئی ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی کہ اگر آدمی ذہنی تناؤ اور اعصابی کشیدگی میں زیادہ عرصہ مبتلا ر ہے تو اس کے مخفس کی شرح بڑھ جاتی ہے، گیلوانی حسیاتی زاحمت Galvanic Sensory Resistance میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ خون میں لیکٹیٹ کی سطح بڑھتی ہے۔ اس سے دل اور دماغ کے عارضوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر انسان ذہنی طور پر سکون اور آرام سے ہو تو نروس سسٹم میں بہتری آتی ہے۔
اسی طرح میٹا بولزم انسانی جسم میں ہونے والا وہ کیمیائی تعامل ہے جس کی وجہ سے خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہوتی ہے دعا کے باعث اس میں کمی کے نتیجے میں خلیات کی عمر بڑھ جاتی ہے اور وہ اپنی بھر پور خدمات جسم کو پہنچا کر شفایابی کا باعث بنتے ہیں۔ انسانی جسم میں امراض کے پہنچنے کا دارومدار جسم میں موجود قوت مدافعت Immune System کی کار کردگی پر بھی ہے۔ اس نظام کی کار کردگی اور جسم میں موجود غدود Glands کی صحت براہِ راست متناسب ہوتی ہے۔ غدود جس قدر صحت مند ہوں گے قوت مدافعت بھی اتنی ہی مستحکم ہو گی۔ غدود کی صحت کا انحصار زیادہ سے زیادہ پرسکون رہنے اور مثبت طرز فکر اور طرز زندگی اپنانے پر مضمر ہے۔ اس لحاظ سے بھی دعا کی اثر انگیزی واضح ہو جاتی ہے۔ ہمارے جسم میں دو مزید اہم نظام کام کر رہے ہیں، سیمپی تھنک نظام Sympathetic System دل کی دھڑکن کی تیزی ، خون کی رفتار کی تیزی اور آنکھوں کی چلیوں کے پھیلنے کو کنٹرول کرتا Parasympathetic System -پیراسیمیپی تھنک سسٹم کے تحت دل کی دھڑکن کا آہستہ ہونا، خون کی رفتار کم ہونا، چلیوں کا سکڑنا اور جسم کے مختلف مادوں اور غدود کی حرکات وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ پیرا سمیتھنک سسٹم انسانی ارادے اور اختیار سے آزاد ہوتا ہے مثال کے طور پر ہمارا سانس لینے کا عمل فطری ہے اگر ہم ارادے واختیار پر سانس کو کچھ دیر روک بھی لیتے ہیں تو تھوڑا وقفہ گزرنے پر دم گھٹنے لگتا ہے اور ہم سانس لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی سے ملتا جلتا معاملہ دل کی دھڑکن کے ساتھ بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق تمام جسمانی، نفسیاتی اور دماغی امراض مثلاً عارضہ قلب ، فالج ، ڈپریشن، قوتِ مدافعت میں کمی وغیرہ اسی نظام کے بگاڑ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
تحقیقات کے پتا چلتا ہے کہ دعا، عبادت، ذکر، ورد، وظائف میں یکسوئی، ذہنی سکون اور کسی ایک جانب توجہ مرکوز ہونے کی بدولت اس نظام پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اگر کوئی شخص خاموشی ، سکون اور یکسوئی کے ساتھ ذکر یا دعا میں مشغول ہوتا ہے تو اس کا جسمانی نظام خود بخود ایسی نفسیاتی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے جس سے میٹابولزم Metabolism، رفتار قلب Rete of Heart اور رفتار مخفس Rate of Breathing بتدریج کم ہوتا جاتا ہے اور دماغی لہریں Brain) (Waves آہستہ ہو جاتی ہیں جس کے نتیجے میں ذہنی دباؤ ( Stress) جو متعدد امراض کا پیش خیمہ ہے، کم یا ختم ہو جاتا ہے اور مریض کی شفایابی زیادہ تیزی سے ہوتی ہے۔ کیمیائی ردعمل: پاورڈ میڈیکل سکول کے ماہر امراض قلب ہر برٹ سینسن Herbert Benson نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ عبادت اور دعا سے امراض قلب اور حملہ قلب روکا جاسکتا ہے، بلند فشار خون میں ڈرامائی کی ہو سکتی ہے اور درد اور
ورد اور مراقبہ بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے
گذشتہ سال امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کو پیش کی جانے والی اپنی نوعیت کی ایک بڑی تحقیق میں پایا گیا کہ کورونری دل کی بیماری کے وہ مریضوں جنہوں نے ورد اور مراقبہ کی مشق کی تھی ، ان میں دوسرے مریضوں کے مقابلے میں دل کا دورہ پڑنے ، فالج اور موت کی شرح تقریبا 50 فیصد کم ہے۔
54 سالہ کلا ڈ یا زیف بتاتی ہیں کہ میری والدہ ہائی بلڈ پریشر کی مریض ہیں۔ مجھے ہائی بلڈ پر یشر ورثہ میں ملا، اس کا مطلب یہ تھا
کہ انہیں زندگی بھر دواؤں کا سامنا کرنا پڑا اور اگر بلڈ پریشر کو کنٹرول نہ کہیا گیا تو بعد کی زندگی میں صحت کے مسائل کا خطرہ تھا، جس میں دل کی بیماری، اسٹروک اور گر دے کو نقصان شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ، ” میں جانتی تھی کہ بڑھتی عمر کے ساتھ میں جینیاتی طور پر ان امراض میں مبتلا ہو جاؤں گی، میں ایک ماہر امراض قلب ڈاکٹر رچرڈ کیرول سے اس کا علاج کروا رہی تھی مگر یہ مرض موروثی ہونے کی وجہ سے صحت مند ہونے کے امکانات کم تھے۔ ڈاکٹر کے توسط سے ہی مجھے ایک ہیلنگ پروگرام میں شرکت کی دعوت ملی، جو لندن میں ہو گا اور مراقبہ کے ماہر کی جانب سے کیا جارہا تھا ، اس پروگرام میں ہائی بلڈ پریشر سے نمٹنے کےلئے ادویات سے پاک طریقہ پر یوگا، سانس کی مشقوں مراقبہ اور ورد کے ذریعے مشقیں کروائی جارہی تھی۔ 12 ہفتوں کی سانس کی مشقوں ، ورد اور مراقبہ کے بعد حیرت انگیز طور پر ان کا بلڈ پریشر دو سال قبل 156/105 کی اعلی سطح پر پہنچ گیا تھا، 107/83 تک کم ہو گیا۔ کلاڈیاز یف کہتی ہیں کہ اس سے بڑے پیمانے
پر فرق پڑا ہے۔ ان وہ ہر صبح 20 منٹ ورد اور مراقبہ کی مشقیں کر تمیں ہیں۔ [ڈیلی میل]
سرطان کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر بنسن جو قلب کے مریضوں کو عبادت اور دعا کے علاوہ سکون اور ستانے کے طریقے کئی سال تک بتاتے رہے ہیں ذکر ، ورد اور وظائف مذہبی کی نفسیاتی اور شفائی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یہ ہر مذہب کے لوگوں کیلئے ان کے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق قابل عمل ہو سکتے ہیں۔
پروفیسر بنسن کا کہنا ہے کہ اس عمل سے جو سونے سے قبل رات کو خاموشی اور سکون کامل کے عالم میں تقریبا ہیں منٹ تک کیا جائے دماغی تناؤ، کھنچاؤ اور دباؤ میں ایک کیمیاوی رد عمل کے تحت زبر دست کمی آتی ہے۔ اعصاب کو حیرت انگیز سکون ملتا ہے اور ہارمون کے نظام کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ہر رات یہ عمل کرنے سے برسوں کی اعصابی پیچیدگی اور دباؤ کا تدارک ہو سکتا ہے۔ پروفیسر بنسن نے اس عمل کے تجربات بلند فشار خون اور امراض قلب کے مریضوں پر کیسے اور حیرت انگیز مفید نتائج ریکارڈ کیے۔ درد سر اور سرطان کے مریضوں پر بھی اس۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2020