Daily Roshni News

اور دنبے نے معاف کر دیا

ہمارے چھوٹے ماموں احمد جب پولیس میں بھرتی ہو رہے تھے تو بقول مامی کے انہوں نے اپنے والدین یعنی میرے نانا نانی سے قرآن پر حلف اُٹھایا تھا کہ میں کبھی رشوت نہ لوں گا۔اور نہ دوں گا،ایک لمبا عرصہ گزر گیا۔ماموں اپنے حلف پر قائم رہے ہر سال بقرہ عید پر ان کی شدید خواہش ہوتی کہ قربانی میں دنبہ ذبح کیا جائے۔

اگلے سال ماموں عید سے پہلے ایک دنبہ خرید لائے۔اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کی۔وہ شام کو ڈیوٹی سے آ کر اس کو قریبی باغ میں لے جاتے۔جہاں وہ دل کھول کر ٹہلتا اور خوب چرتا۔
وہ اپنے ہاتھوں سے اس کو چارا کھلاتے،نہلاتے اور پیار کرتے۔دنبہ ان سے بہت مانوس ہو گیا اور ہر شام ان کی واپسی کا انتظار کرتا۔عید قریب تھی ماموں کی ڈیوٹی کا وقت بدل گیا۔

اس دوران عید کے حوالے سے تیاری،بے وقت کی ڈیوٹی اور ذاتی مصروفیات کی وجہ سے ماموں چڑچڑے ہو گئے۔ایک دن وہ رات کی ڈیوٹی کر کے آئے۔وہ بہت تھکے ہوئے تھے۔جیسے ہی گھر کی دہلیز پر قدم رکھا تو دنبے نے محبت سے ماموں کی پینٹ پکڑ لی۔وہ تھکے ہوئے تھے،دنبے سے پینٹ چھڑوانے کی کوشش کی لیکن اس نے نہ چھوڑی ماموں نے غصے سے دنبے کو دھکا دیا۔اور چلے گئے،اگلے دن ان کی چھٹی تھی تو وہ دیر تک سوتے رہے۔

شام کو نہا دھو کر جب ماموں نے دنبے کو چارا پانی کھلانا چاہا تو اس نے کھانے سے انکار کر دیا۔ماموں نے بہت کوشش کی اور ہر طرح کے جتن کر ڈالے۔لیکن دنبہ ٹس سے مس نہ ہوا۔البتہ دنبے کی آنکھوں میں آنسو تھے ماموں سمجھ گئے کہ رات جو میں نے اسے مارا اور دھکا دیا تھا تو یہ مجھ سے ناراض ہے ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔انہوں نے اسے نہلایا اور پیار کیا۔

پھر چارا اور پانی اس کے آگے رکھا۔وہ نہ مانا پھر انہوں نے دنبے کے چہرے کو پکڑا اور کہا ”پیارے دنبے مجھے معاف کر دو،مجھ سے غلطی ہو گئی۔“ وہ پھر بھی نہ مانا تو ماموں نے اس کے پیر پکڑ لئے اور کہا ”پیارے دنبے!میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں۔پلیز مجھے معاف کر دو۔اب تو میں نے تمہارے پیر بھی پکڑ لیے ہیں۔“
ماموں کا یہ کہنا تھا کہ دنبے نے خوب چارا بھی کھایا اور ڈھیروں پانی بھی پیا پھر اگلے ہی روز وہ قربان ہو گیا۔

Loading