اولاد میں تاخیر ۔۔۔!
عورت ہی ذمہ دار کیوں؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ اولاد میں تاخیر ۔۔۔! عورت ہی ذمہ دار کیوں؟ )ہمارے معاشرے کا عام چلن ہے کہ شادی کے بعد بہت جلد ہی خاندان کے لوگ مختلف قسم کے سوالات شروع کر دیتے ہیں۔ ہر ایک کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ نئے جوڑے کے ہاں بچے کی آمد کب ہو گی ….؟ کچھ عرصہ بیت جائے تو گھر کے بزرگ، خاص کر خواتین دلہن سے عجیب و غریب سوال وجواب اور مشوروں سے اس کی زندگی مشکل بنادیتی ہیں۔ زرینہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے بڑے ناز و نعم میں پل کر جوان ہوئی تھی ، وہ خوب صورت اور سلیقہ شعار تھی۔ جلد ہی اس کا رشتہ طے ہو گیا۔ لڑکا و جیہ پڑھالکھا اور ایک بڑی کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھا۔ زرینہ کی چٹ منگلی اور پٹ
بیاہ ہو گیا۔
سسرال آنے پر زرینہ کو ساس، سسر کا بہت پیار ا…. بنتے مسکراتے ایک سال گزر گیا۔ اب ساس، سسر کو تشویش شروع ہوئی کہ ہمارے آنگن میں پھول کب کھلے گا ….؟
پہلے پہل تو ساس، سر بالواسطہ کہتے تھے مگر کچھ ماہ بعد بر اور است کہنے لگے ” بیٹی ہم نے تو بیٹے کی شادی اس لیے جلدی کی تھی تاکہ ہم اپنی زندگی میں پوتے پوتیوں کو کھلا سکیں مگر اب تک تمہاری گود خالی ہے۔ بیٹا اگر ایسی کوئی پرابلم ہے تو کسی ڈاکٹر سے مشورہ
کرلو۔“
زرینہ شرما کر کہتی کہ میں ان سے بات کروں گی۔ ایک دن زرینہ کے شوہر فیاض سے اس کےوالد نے کہا کہ ” بیٹا میں نے آپ لوگوں کے لیے ڈاکٹر سے وقت لے لیا ہے۔ تم دونوں مقررہ وقت پر ڈاکٹر کے پاس پہنچ جانا۔
ڈاکٹر نے دونوں سے کچھ سوالات کیے اور پھر کچھ زرینہ کے ٹیسٹ لکھ دیئے۔ ٹیسٹ اسی دن کروا لیے گئے جن کی رپورٹ تین روز بعد آئی۔ زرینہ کے تمام ٹیسٹ کلیئر تھے۔
ڈاکٹر نے فیاض سے کہا ” فیاض صاحب آپ کی ہسٹری دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کچھ کمی آپ میں ہے آپ بھی اپنے ٹیسٹ کروالیں، مگر فیاض اس بات پر راضی نہیں ہوا۔ گھر پہنچ کر فیاض زرینہ سے کہنے لگا دیکھو کیسا بیوقوف ڈاکٹر تھا کہتا ہے کہ میں اپنے ٹیسٹ کروالوں۔ بھلا بتاؤ میں اپنے ٹیسٹ کیوں کروالوں۔ ہو سکتا ہے کہ خدا کو یہی منظور ہو یا پھر ہماری گود بھرنے میں کچھ عرصہ درکار ہو۔ قدرت کے کاموں میں ہماری مرضی تھوڑی چلتی ہے “۔ اسی طرح دو سال گزر گئے اب تو ساس، سسربیٹے سے کہنے لگے کہ
بیٹا اس بانچھ کی گود میں کبھی پھول نہیں کھلے گا تم دوسری شادی کر لو ۔
فیاض اپنی بیوی سے بے حد محبت کرتا تھا لہذا وہ ہر مرتبہ بات کو ٹال جاتا تھا۔ آخر ماں باپ کے دباؤ کی وجہ سے خاموشی سے ایک دن اس نے اپنا ٹیسٹ کروایا۔ ٹیسٹ میں فیاض کو بتایا گیا کہ اسے علاج کی ضرورت ہے۔ مگر فیاض یہ تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ اسے علاج کی ضرورت ہے۔ آخر چار سال بعد فیاض کی دوسری شادی کر دی گئی۔ زرینہ بہت روئی مگر اس کی کون سنتا۔
آج فیاض کی دوسری شادی کو بھی تین برس ہو چکے ہیں مگر وہ اولاد سے محروم ہے۔
شادی کے کچھ ہی عرصے بعد اگر نئے وجود کی آمد کے آثار نہ ہوں تو لڑکی کے سسرالی عزیز اسے اور اس کے گھر والوں کو لڑکی کے چیک اپ اور علاج کے مشورے دینا شروع کر دیتے ہیں۔
اس کے ساتھ کی بیاہی دوسری لڑکیوں سے تقابل بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اس تاخیر میں یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ہونے والے بچے کی تاخیر کی ذمہ دار صرف اور صرف لڑکی ہے۔ کم تعلیم یافتہ لوگ تو در کنار بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے، اعلی تعلیم یافتہ اور سمجھ دار لوگوں کا خیال بھی یہی ہوتا ہے کہ نقص لڑکی میں ہے اور اسے ہی علاج اور چیک اپ کی ضرورت ہے۔ کئی گھرانوں میں تو شادی شدہ لڑکی پر اولاد کے لیے اتنا شدید دباؤ ہوتا ہے کہ شادی برقرار رہنے کا دار و مدار صرف اور صرف اسی بات پر ہے کہ وہ جلد از جلد کوئی خوشخبری سنائے۔ اس تمام صورت حال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لڑکی اور اس کے گھر والے اپنی مالی حیثیت کے مطابق ڈاکٹروں، حکیموں کے پاس چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
عام طور پر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اس مسئلے میں کہیں بھی نہ لڑکے کے چیک اپ کا ذکر ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کسی نقص کے ہونے کا شک کیا جاتا ہے۔ نہ لڑکے پر کسی قسم کا نفسیاتی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ لڑکا خود بھی اسی معاملے میں بیوی کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکا اور اس کی فیملی لڑکی کے خلاف ایک محاذ بنا لیتے ہیں بات بات پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ طلاق کی دھمکیاں تک دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات تو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ دباؤ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ عورت اپنی زندگی سے بیزار ہو کر خود کشی تک پر مجبور ہو جاتی ہے یا پھر جیسا کہ بعض کمیسز میں سنے میں آتارہا ہے کہ خود اس کے سسرال والے اسٹو و پھٹنے کا بہانہ بنا کر اسے موت کی آغوش میں پہنچا دیتے تھے۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بانجھ پن یا اولاد سے محرومی کا مسئلہ مرد عورت دونوں میں ہو سکتا ہے۔ اگر 100 بے اولاد جوڑے لیے جائیں تو ان میں 40 فیصد عورتیں بانجھ ہوں گی اور 40 فیصد مرد۔ باقی 20 فیصد میاں بیوی دونوں میں بظاہر کوئی خرابی نہ ہونے کے باوجود حمل نہیں ٹھہرتا۔ چنانچہ اگر حمل میں تاخیر کا مسئلہ ہو تو میاں بیوی دونوں کا ہی چیک اپ کیا جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ کس میں کمی ہے۔ میڈیکل ریسرچ کے مطابق بانجھ پن کا علاج شادی کے تقریباً ایک سال بعد سے شروع کرنا چاہیے۔ ہاں اگر شادی دیر سے ہوئی ہے یعنی لڑکی یا لڑکے کی عمر 35 سال سے زیادہ ہے تو علاج چھ سے آٹھ ماہ کے اندر بھی شروع کروانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے لیے پہلے شوہر کا ٹیسٹ ہونا چاہیے۔ اگر شوہر میں کوئی خرابی ہو تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہ علاج سے ٹھیک ہو جائے گی۔ لیکن کئی کیسز میں شوہر اس ٹیسٹ کے مشورے کو ہی اپنی تو ہین سمجھتا ہے اور کسی صورت ٹیسٹ پر راضی نہیں ہوتا اور نہ ہی بیوی سے اس موضوع پر گفتگو کرنا پسند کرتا ہے۔ بانجھ پن کی صورت میں کئی گھرانوں میں صرف بیوی کا علاج ہوتا رہتا ہے مگر کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ جب بھی کسی ماہر امراض نسواں یا لیڈی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے تو اس سے شوہر کی رپورٹ طلب کی جاتی ہے جس پر یا ) تو وہ اکثر اس قسم کے بہانے کرتی ہے کہ رپورٹ ٹھیک ہے یا کم ہو گئی ہے یا اصرار کرتی male ہے کہ اسی کا علاج کیا جائے۔ اس قسم کی صورت حال میں اگر نقص شوہر میں ہے تو اس کی نہ تشخیص ہوتی ہے نہ ہی علاج۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر کئی قابل علاج امراض ٹیسٹ نہ کروانے کی ضد کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شوہر دوسری شادی بھی کر لیتا ہے مگر اولاد دوسری بیوی سے بھی نہیں ہوتی۔ قصور وار پھر بھی عورت ہی ٹھہرائی جاتی ہے۔
شادی شدہ جوڑوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اولاد ہونے کے لیے شوہر اور بیوی دونوں کا صحت مند ہو ناضروری ہے اور نقص صرف بیوی میں ہی نہیں بلکہ شوہر میں بھی ہو سکتا ہے۔
ذرا سوچیے! شوہر کے ایک معمولی ٹیسٹ اور اس کے بعد کچھ علاج سے اگر گھر کے آنگن میں ننھے منے پھول کھل سکتے ہیں تو اس سے بڑی مسرت کی
بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
اولاد کے معاملے میں بعض خواتین ایک اور طرح کے عذاب سے گزرتی ہیں کہ ان کا ہونے والا بچہ لڑکا ہو …. بچے کی جنس (لڑکا یا لڑکی ) کا تعین عورت نہیں بلکہ مرد کے کروموسومز کرتے ہیں عورت میں XXکروموسومز اور مرد میں XYکروموسومز ہوتے ہیں۔ Xکروموسومز زنانہ خصوصیات رکھتے ہیں اور لا کروموسومز مردانہ۔ اگر مرد کا X کروموسوم اور عورت کا Xکروموسوم ملتا ہے تو لڑکی کی پیدائش ہوتی ہے اور اگر مرد کا Y کروموسوم اور عورت کا Xکروموسوم ملتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔
چنانچہ اگر کسی کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ مرد کی جانب لا کروموسوم ست تھا اس لیے وہ عورت کے Xکروموسوم سے بروقت نہ مل سکا اور Y کے بجائے مرد کا کر و موسوم عورت کے Xکروموسوم سے جا ملا۔ ہمارے معاشرے کے بعض گھرانوں میں عورت کو اس وجہ سے برا بھلا کہا جاتا اور طعنے دیئے جاتے ہیں کہ اس کے ہاں لڑکا پیدا نہیں ہوا۔ دراصل یہ تو مرد کا کروموسوم ہوتا ہے جو ہونے والے بچے کو لڑکا یالڑ کی بناتا ہے۔ لڑکے کی امید میں ماں بار بار حمل کی تکلیف سے گزرتی ہے۔ جتنے حمل زیادہ ہوتے ہیں اتناہی پیچیدگیوں حتی کہ بعض کمیسز میں موت کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کی پیدائش ماں باپ کے لیے ایک جیسی خوشی اور مسرت کا لمحہ ہونا چاہیے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2022
![]()

