Daily Roshni News

اولاد کی حفاظت موجودہ دور میں کیسے کی جائے؟۔۔۔(قسط نمبر2)

اولاد کی حفاظت موجودہ دور میں کیسے کی جائے۔۔۔؟

موبائل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا

کے منفی اثرات سے اولاد کو کیسے بچائیں۔

(قسط نمبر2)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کار کردگی کا جان کر بہت افسوس ہوا۔ آپ کے خیال میں اس کے بگاڑ کے اسباب موبائل فون اور انٹر نیٹ ہیں۔ یہ خیال کسی حد تک ٹھیک ہو سکتا ہے۔ لیکن میں کئی ایسے بچوں کو جانتا ہوں جن کے نمبر میٹرک یا اولیول میں کم آئے تھے۔ ان کے پاس موبائل فون یا لیپ ٹاپ بھی تھے لیکن انٹریا اے لیول میں ان کے رزلٹ بہت اچھے آئے۔ کئی ایسے بچوں کو بھی جانتا ہوں جن کے پاس موبائل فون نہیں تھے لیکن وہ انٹر یا اے لیول میں بہت کم نمبر حاصل کر پائے۔ کئی ایسے نوجوانوں کو یا بڑی عمر کے افراد کو بھی جانتا ہوں، جنہوں نے انٹر نیٹ کو علم و آگہی میں اضافے اور کسی مثبت و تعمیری کام کے بجائے صرف انٹر ٹینمٹ یا جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا۔ بعض اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کو وقت گزاری اور تفریح طبع کے لیے استعمال کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کئی ایسے نوجوانوں کو بھی جانتا ہوں ، جن کے پاس اینڈرائیڈ فون یا انٹرنیٹ کی سہولت نہیں لیکن وہ جنسی بے راہ روی میں پڑگئے۔ میں کئی ایسے نوجوانوں کو بھی جانتا ہوں جو تعلیم کے لیے اپنے والدین سے ہزاروں میل دور امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ملکوں میں گئے۔ تنہا رہنے والے یہ نوجوان وہاں کے آزادانہ ماحول سے متاثر ہوئے بغیر بہت یکسوئی سے تعلیم حاصل کر کے امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوئے۔ آج موبائل فون یا انٹرنیٹ کا استعمال ناگزیر ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اس ٹیکنالوجی سے روک نہیں سکتے۔ ٹیکنالوجی کا مفید استعمال بھی ہے اور مضر استعمال بھی۔ اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ٹیکنالوجی تک رسائی بھی دیں اور ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے بچوں کی مناسب رہنمائی بھی کرتے رہیں۔ اس رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود ٹیکنالوجی سے کسی حد تک واقف ہوں۔ بچوں کو موبائل فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ یا کمپیوٹر دیتے وقت یہ ضروری بنائیں کہ ان کے پاس ورڈز والدین کے علم میں ہوں۔

بچوں کے دوستوں اور بچوں کی مصروفیات سے والدین کا واقف رہنا ضروری ہے۔ آپ کے بیٹے کے تعلیمی کیریئر کی خرابی کی ذمہ داری صرف موبائل فون یا انٹرنیٹ پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ اب بھی اس کی حالت سدھر سکتی ہے اور وہ تعلیمی میدان میں دوبارہ اچھی کار کردگی دکھا سکتا ہے۔ اس کے لیے آپ کو اپنے بیٹے کے معاملات میں دلچسپی اور اس کے معمولات میں شمولیت اختیار کرنی ہو گی۔ بطور روحانی علاج رات سونے سے پہلے 101 مرتبہ سورہ الشعرا (26) کی آیات 85-83، گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کیجیے کہ بیٹے کی تربیت اور اصلاح کے معاملے میں آپ کی مدد ہو اور آپ کا بیٹا جلد راور است پر آجائے۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔ چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماریا هادی یار شید کا ورد کرتے رہیں۔

[ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کے کالم سے اقتباس روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2018ء]

یہ حقیقت ہے کہ آج کا بچہ معلومات کے اس دور میں رو رہا ہے جس کا تصور ہیں پچیس سال پہلے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوان اور بچے بہت سی معلومات حاصل کر رہے ہیں مگر اس کے با وجود ایک پریشانی اپنی جگہ موجود ہے اور وہ ہے انٹرنیٹ پر موجود مضر معلومات اور ہیجان انگیز مواد کا حصول آسان ہے۔ یہ چیزیں نوخیز ذہنوں کے لیے انتہائی نقصان اور بگاڑ کا سبب بن سکتی ہیں۔

انٹرنیٹ کی افادیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ، یہ علم و تحقیق کا ذخیرہ ہے۔ لیکن، انٹرنیٹ پر بے حیائی اور تشدد کی ویب سائٹس بھی عام ہیں۔ انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس پر موجود اشتہارات بھی بچوں اور نوجوانوں پر منفی طور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ بہت سے نوجوان انٹرنیٹ اتنا زیادہ استعمال کرتے ہیں کہ انہیں اس کی نشے کی طرح لت پڑ جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تقریباً ہر وقت آن لائن رہنے والے نوجوانوں میں ڈپریشن کا خطرہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ طبی ماہرین کسی بھی صارف کے نامناسب حد تک زیادہ آن لائن رہنے کو ، جسے متعلقہ فرد خود بھی کنٹرول نہ کر سکے، انٹرنیٹ کے پیتھالوجیکل استعمال کا نام دیتے ہیں۔

اپنے بچوں کو انٹر نیٹ کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنا والدین بالخصوص ماں کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں بچے کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ کیا شے اچھی ہے اور کیا شے بری۔ بچوں کو بری معلومات سے محفوظ رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ انہیں وقتاً فوقتاً چیک کرتے رہنا بھی ہے۔ بعض ماہرین کے خیال میں بچوں کے ساتھ کمپیوٹر پر رہنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے بچوں کی کھیل کے میدان میں نگرانی کرنا۔ بچے کو انٹرنیٹ کی اجازت دینے کے بعد جبر آیا تشدد کے ذریعے اسے روکنے کی کوشش کریں گے تو یاد رکھیے بچے میں تجس کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا رہے گا کہ مجھے اس چیز سے کیوں روکا گیا ہے، اور اس پوشیدہ Hidden سائٹ پر ایسا کیا ہے۔؟ بچے کو زبر دستی

مفر سائٹ سے نہیں روکا جاسکتا بلکہ اسے اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کرنا چاہیے کہ فلاں فلاں چیزیں غلط اور نقصان دہ ہیں۔ ماہرین کے مطابق، بچوں پر سختی سے زیادہ کارآمد ان کی بہتر تربیت ہے، تاکہ وہ انٹر نیٹ کو مثبت طور پر استعمال کر سکیں والدین کو چاہئے کہ جب بچے انٹرنیٹ استعمال کریں تو وہ بچوں کے ساتھ رہیں۔ کمپیوٹر بچوں کے کمرے کی بجائے گھر کی کسی ایسی جگہ رکھا جائے جہاں گھر کے سب لوگوں کا آنا جانا ہو، جیسا کہ ٹی وی لاؤنج، تاکہ بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر ر کھی جاسکے۔ انٹر نیٹ کے استعمال کے لیے وقت مقرر ہونا چاہیے۔ اس دوران بچوں کو والدین کی سرپرستی حاصل ہونی چاہئے اور بچوں کو یہ تہیہ کرنا چاہئے کہ وہ انٹر نیٹ پر کبھی بھی کسی کو اپنی ذاتی معلومات نہ دیں۔ اپنی تصاویر یا اپنے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے پاس ورڈ کسی کو نہ دیں اگر کبھی کوئی کسی بچے کو ناز یبا پیغام دے تو اس بچے کو فوری طور پر اپنے والدین کو اس بارے میں بتانا چاہئے ۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ براؤزر پر مختلف فلٹرز سے خراب مواد کی با آسانی نشاندہی ہو سکتی ہے۔

یاد رکھیے ! والدین کی توجہ اور عمرانی کے بغیر بچوں کو انٹرنیٹ پر تحفظ مہیا کرنا تقریبا نا ممکن ہے۔ والدین کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ ان کے بچوں نے کون کون سی فائلیں ڈاؤن لوڈ کی ہیں۔ اس کے علاوہ والدین اپنے بچوں کو وقت دیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ کیونکہ بچہ چاہت کا بھوکا ہوتا ہے چاہت اسے جہاں سے ملے اُسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی2021

Loading