Daily Roshni News

اولاد کی روحانی تربیت۔۔۔قسط نمبر2

اولاد کی روحانی تربیت

بچوں کی اچھی تربیت و تعلیم کے لئے

اولیاء اللہ سے رہنمائی

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اولاد کی روحانی تربیت) نماز پڑھ لی اور نماز کے بعد جائے نماز کے نیچے موجود شکر بھی کھائی۔
اس پر فرید الدین کی والدہ ماجدہ نے اللہ کا بہت شکر ادا کیا۔
بڑے پیر صاحب حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا ایک واقعہ بھی بہت مشہور ہے۔ جب تعلیم حاصل کرنے بغداد روانہ ہوئے تو ان کی والدہ نے چند اشرفیاں ان کے لباس میں سی کر انہیں بتادیا کہ کپڑوں میں اشرفیاں موجود ہیں۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت شیخ عبدالقادر جیلانی کی والدہ نے انہیں نصیحت کی کہ بیٹا حالات کچھ بھی ہوں جھوٹ کبھی مت بولنا۔
سفر کے دوران ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کردیا۔ ایک ڈاکو شیخ عبد القادر کے پاس آیا اور پوچھا ‘‘لڑکے تیرے پاس بھی کچھ ہے’’۔شیخ عبدالقادر نے جواب دیا‘‘ہاں میرے پاس اشرفیاں ہیں۔’’ رہزنوں نے تلاشی لی مگر انہیں اشرفیاں نہ ملیں۔ رہزنوں نے جھنجلا کر کہا جھوٹ بولتا ہے۔ آپؒ نے فرمایا ‘‘نہیں۔ میرے پاس اشرفیاں موجود ہیں’’۔ دوبارہ تلاشی لی مگر رہزنوں کو دوبارہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ جھنجلاہٹ میں وہ شیخ کو اپنے سردار کے پاس لے گئے اور بتایا کہ یہ لڑکا ایسا ایسا کہتا ہے۔ سردار کو بھی شیخ عبدالقادر نے یہی بتایا کہ میرے پاس اشرفیاں ہیں۔ اس موقع پر سردار نے ان سے کہا ‘‘اے نوجوان تو جھوٹ بول کر اپنی ان اشرفیوں کو ہم سے چھپا سکتا تھا پھر تو نے ایسا کیوں نہ کیا؟’’
شیخ عبدالقادرنے کہا ‘‘میری والدہ کی نصیحت ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں کبھی جھوٹ نہ بولنا’’۔ شیخ عبدالقادر کی اس بات سے ڈاکو اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے قافلے والوں کا لوٹا ہوا سامان واپس کردیا اور رہزنی سے توبہ بھی کرلی۔
یہ واقعہ ہم عام طور پر سن اور پڑھ تو لیتے ہیں لیکن شاید اس کی گہرائی پر کم ہی غور کیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بچے صرف وہی باتیں قبول کرتے ہیں جو والدین کو کرتے دیکھتے ہیں۔ بڑے پیر صاحبؒ کے یقین کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپؒ کی والدہ نے کبھی جھوٹ نہ بولا تھا۔
یہ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ ہم ایک کام خود کرتے ہوں اور بچے کو وہ کرنے سے منع کریں تو نصیحت اس پر اثر نہیں کرتی۔ ایک صاحب خود سگریٹ نوشی کرتے ہوں ان کے ہاتھ میں سگریٹ ہو اور وہ اولاد کو منع کریں کہ سگریٹ مت پیئو تو بتائیے کیا ان کی نصیحت میں کوئی اثر باقی رہ جائے گا۔
اپنے بچوں کو کسی برے کام سے روکنے کا مؤثر طریقہ یہ ہے کہ بڑے خود وہ کام نہ کریں۔ والدین کی بعض عادتیں بچے غیر محسوس طریقے سے قبول کرلیتے ہیں۔ والدین جھوٹ بولتے ہوں ، غیبت و چغلی کرتے ہوں تو اولاد بھی یہی رویہ اختیار کرلیتی ہے۔ حالانکہ والدین کبھی یہ نہیں چاہتے کہ برائیاں بچوں میں منتقل ہوں نہ ہی وہ اپنے بچوں کو برائیوں کی تعلیم دیتے ہیں مگر ان کا کردار بچوں میں غیر محسوس انداز میں منتقل ہوجاتا ہے۔
اہلِ روحانیت کی تعلیمات سے یہ روشنی ملتی ہے کہ ماں باپ کی سوچ بچے کو منتقل ہوتی ہے۔ پیدائش کے بعد بھی ماں بچے کے لئے مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔ بچہ ہر مشکل ہر تکلیف میں ماں کی طرف ہی لپکتا ہے۔ باپ تو دن بھر ذریعہ معاش میں مصروف رہتا ہے اور بچہ کو چوبیس گھنٹے میں محض چند گھنٹے ہی دے پاتا ہے۔
بچے کی توقعات اور تصورات کا محور زیادہ تر ماں ہوتی ہے۔
اس مضمون کا بنیادی مقصد بھی ماؤں کو اس بات کی اہمیت بتانا ہے کہ بچے کو زیادہ تر ماں کا ذہن منتقل ہوتا ہے۔ باپ یعنی شوہر کو گھر میں ایسا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس میں بیوی یعنی ماں پرسکون اور آسودہ حالت میں بچے کی اچھی تربیت کرسکے۔ شوہر او ربیوی یعنی ماں باپ کے باہمی تعاون اور دونوں کی جانب سے ملنے والی اچھی تربیت بچہ کے مثبت کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔
تربیت کے لحاظ سے لڑکپن کا دور بہت اہم ہے۔ اس دور میں بچپن کی تربیت بہت کام آتی ہے۔ یہ سمجھیں کہ جس طرح مضبوط بنیاد پر بڑی سے بڑی عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے بالکل اسی طرح اگر بچپن کے حساس دور میں بچے کی تربیت اچھی طرح کی گئی تو لڑکپن میں قدرے آسانی ہوجاتی ہے۔
لڑکپن کا دور سات آٹھ سال سے بلوغت تک ہوتا ہے۔ لڑکپن کی ابتداء اس وقت سے شروع ہوجاتی ہے جب بچہ تخیلاتی تصویر کشی کے علاوہ چیزوں کو حقیقی معنوں میں دیکھنے لگتا ہے۔ اس عمر میں بچہ کی ضد کم ہونے لگتی ہے اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ لڑکپن کی عمر اخلاقی اور روحانی تربیت کی عمر ہے۔ اس عمر میں بچہ ذہنی طور پر خود بھی اور والدین و اساتذہ کی باتوں سے اچھے بُرے کی تمیز کرسکتا ہے۔
دس سال سے سولہ سال تک کا بچہ زیادہ گہرائی سے اخلاقی باتیں سن اور سمجھ سکتا ہے۔ یہ دور اس لحاظ سے نازک ہے کہ بچہ سختی کرنے سے متنفر ہوسکتا ہے کیو نکہ وہ خود سوچنا اور سمجھنا چاہتا ہے۔ بڑوں کو اسے سمجھانا ضرور چاہئے مگر اپنی مرضی زبردستی مسلط کرنا فاصلے پیدا کرسکتا ہے۔
اولیاء اﷲ میں لڑکپن کا ایک واقعہ حضرت شیخ سعدی ؒ کی سوانح سے ملتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت شیخ سعدی ؒ اپنے والد کے ساتھ سفر میں تھے۔ اسی دوران ان کا قیام ایک مسجد میں ہوا۔ رات کے وقت والد صاحب وضو کر کے نوافل اور ذکر و فکر میں مصروف ہوگئے۔ حضرت شیخ سعدی ؒ بھی اٹھے اور وضو کیا ۔ اس دوران چند آدمی آئے اور مسجد میں آکر سوگئے۔ حضرت شیخ سعدی ؒ نے وضو کیا اور والد کے ساتھ ساری رات ذکر و فکر میں گزار دی۔ صبح اپنے والد سے کہا’’ابا جان یہ لوگ مسجد میں آکر سوتے نہیں بلکہ عبادت کرلیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ انہوں نے پوری رات ضائع کردی‘‘۔ والد صاحب نے فرمایا ‘‘دوسروں پر نظر رکھنے کے بجائے تمہارا بھی سوجانا بہتر ہوتا’’۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنی دادی اماں کے حوالے سے چند واقعات کا تذکرہ کیا ہے جو بچوں پر بزرگوں کی تربیت کے اثرات کا ایک خاکہ پیش کرتے ہیں ۔ حضرت عظیمی صاحب کتاب ‘‘آوازِ دوست’’ میں تحریر فرماتے ہیں
‘‘میں نے شعور کے زینے پر پہلا قدم رکھا تو یہ دیکھا کہ دادی امّاں کی گود میں ہوں اور دادی امّاں اﷲ کے کلام کے ورد میں مگن ہیں۔ یہ بھی دیکھا کہ رات کو سونے سے پہلے کلمۂ شہادت پڑھوایا جارہا ہے اور پھر صبح بیدار ہونے کے وقت لازم تھا کہ آنکھ کھلتے ہی کلمۂ طیبہ پڑھا جائے۔ دادی اماں کہانیاں بھی سناتی تھیں۔
ہر کہانی کا ایک مفہوم ہوتا تھا کہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا رسول بادشاہ۔ اﷲ نے اپنے رسول کے پاس فرشتہ بھیجا۔
ایک نجی محفل میں سلسلہ عظیمیہ کی ایک بہن کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت عظیمی صاحب بچے کی تربیت میں والدین اور بزرگوں کی اہمیت پر روشنی ڈال رہے تھے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا
’’میری دادی کی بتائی ہوئی یہ بات کہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ ، خدا کا بنایا رسول ﷺ بادشاہ۔ یہ بات میرے ذہن میں اس طرح نقش ہوگئی کہ اﷲ اور رسولاﷲ ﷺ کے علاوہ کسی کی بڑائی یا بادشاہت اہمیت نہیں رہی۔
یہاں ہم حضرت عظیمی صاحب کی فرمائی ہوئی ایک اور بات کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں
دانش ور اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی تربیت کا پہلا گہوارہ اس کا گھر ہوتا ہے۔ بچہ جو سنتا ہے وہی بولتا ہے اور جو دیکھتا ہے وہی اس کا علم بن جاتا ہے۔ آج کے دور میں ہم نہیں دیکھتے کہ دادی اماں نے یہ کہا ہو کہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا رسولﷺ بادشاہ۔
دن رات گانوں کی آوازیں ہمارے اعصاب پر محیط رہتی ہیں۔ رات کو سونے سے پہلے کتنی مائیں اپنے بچوں کو یہ تلقین کرتی ہیں کہ کلمہ شہادت پڑھ کر سونا چاہیے، کتنے والد اپنی اولاد کو بیدار ہونے کے بعد کلمہ طیبہ پڑھنے کے لئے کہتے ہیں۔
ایک مرتبہ خواجہ شمس الدین عظیمی کے پاس چند افراد موجود تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے عظیمی صاحب سے پوچھا ‘‘ہمیں بتائیے کہ اولاد کی تربیت ہم کس طرح کریں….؟’’
عظیمی صاحب نے مختصر جواب دیا
‘‘اپنی تربیت کرلیجیے…. اولاد کی تربیت خود بخود ہوجائے گی….’’
ایسے لڑکے یا لڑکیاں جنہیں آئندہ باپ یا ماں بننا ہے ان سب پر لازم ہے کہ پہلے اپنی تربیت کریں۔ اپنے اخلاق و کردار کو سنواریں اور اپنی طرز فکر درست کرلیں۔
آج ہم یہ دیکھتے یں بہت سے لڑکے اور لڑکیوں کی شادی ہوجاتی ہے لیکن ان کی ذہنی تربیت نہیں ہوئی ہوتی۔ شوہر بیوی کو دباؤ میں رکھنے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کرنا ضروری خیال کرتا ہے اور بیوی شوہر پر تسلط جمانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے۔ ساس بہو، نند بھاوج کی لڑائیاں بھی اکثر تخریبی ذہنوں کی پیداوار ہوتی ہیں۔ لڑائی، جھگڑے، سرد جنگیں اور چپقلش…. اس ماحول میں بچے کی کیا تربیت ہوسکے گی، سب سمجھ سکتے ہیں….
اس لیے بچے کی تربیت سے پہلے ضروری ہے کہ والدین اپنی تربیت کی کوشش کریں۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  مئی 2021

Loading