اپنی بیوی پر الزام لگا کر وہ چھ سال بعد لوٹا تھا
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اپنی بیوی پر الزام لگا کر وہ چھ سال بعد لوٹا تھا جب وہ گیا تھا اچھے سے جانتا تھا اسکی بیوی اسکے بچے کی ماں بنے والی ہے آج انکا بیٹا چھ سال کا ہوچکا ہے تب اس شخص کو یاد آیا کے اسکی کوئی اولاد بھی ہے۔۔۔۔
وہ بھول چکا تھا ایک وقت میں وہی اسکا دیوانہ تھا جس نے اسکے انکار کے باوجود زبردستی اسے اپنی زندگی میں شامل کیا۔۔۔۔۔
” کسی قسم کی خوش فہمی کو دل میں جگہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہاری اس عارضی رفاقت کو ناگواریت کو جبر سہنے پہ میں اپنے بیٹے کی وجہ سے مجبور ہوا ہوں۔“ بھینچے ہوئے لہجے میں وہ تنک کر بولی تھی۔ ولید کے چہرے پر زہر سے بجھی مسکان پھیل گئی۔
” میں جانتا ہوں آپ نے اس قسم کے کیا، کسی قسم کے بھی حقوق مجھے نہیں دیئے۔“ اس کے اندر کی کھولن بہت سرعت سے باہر آئی تھی اور اسی حساب سے ایمان کی اذیت میں اضافہ ہوا۔۔۔۔
” اس کے باوجود آپ ہر قسم کے حق استعمال کرتے رہے؟ وائے ؟ “وہ غم و غصے سے جیسے پاگل ہوگئی تھی ۔
” میں کب کا لعنت بھیج چکا ہوں تم پر …”
کھولتے اعصاب پر قابو پا کر اب وہ بہت تضحیک آمیز انداز میں گویا ہوا تھا اور گویا ایمان کو سرتا پا سلگا دیا۔
” تو پھر چھوڑ کیوں نہیں دیتے مجھے ؟ کیوں اپنے ساتھ لٹکا رکھا ہے؟ اگر اتنی ہی نفرت ہے “ وہ جیسے بس سے باہر ہونے لگی۔
” چھوڑ دوں؟ تاکہ تم پنی مرضی سے گلچھرے اڑا سکو؟ میں تمہاری اس مکروہ خواہش کو کبھی پورا نہیں ہونے دوں گا۔“ ولید کا اشتعال عروج پر جا پہنچا۔ ایمان کو لگا تھا کسی نے یک لخت اس کے وجود کو کسی تیز دھار آلے
سے دو ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا وہ۔ چھ سال بعد بھی اس پر وہی الزام بدستور تھا۔ وہ مرکیوں نہیں جاتی ؟ اس ذلت سے کیا موت بہتر نہیں تھی؟
اس نے شدید ذہنی ہیجان کے ساتھ سوچا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر مجنونانہ کیفیت میں سمت کا تعین سمجھتے بغیر دوڑ پڑی۔ ولید حسن جو خود شدید طیش کی کیفیت میں تھا، اس کی اس حرکت پر فوری طور پر اس لئے بھی متوجہ نہیں ہو سکا تھا کہ اس کی ساری توجہ امید حسن کی طرف ہو گئی تھی جو انہیں جھگڑتے ہوئے دیکھ کر پہلے تو سہمی ہوئی نظروں سے دونوں کو ٹکر ٹکر دیکھتا رہا تھا، پھر ولید حسن کے بازو سے چمٹ کر گھٹ گھٹ کر رونے لگا۔
ولید حسن اسے چپ کرانے میں مصروف ہو چکا تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز پہ چونکا۔ گاڑی اس وقت کی سی سائیڈ کے نزدیک تھی اور ایمان کا رخ سمندر کی طرف تھا۔ وہ اندھا دھند، دیوانہ وار سمندر کی طرف لپکی جا
رہی تھی۔
” پاپا۔۔۔۔۔۔ماما۔۔۔۔۔ماما۔۔۔۔۔۔”
اُمید حسن کے چیخنے کی آواز پہ اس کے ایک دم جامد ہو جانے والے اعصاب خفیف سے جھٹکے سے بیدار ہوئے۔ اُمید حسن کو چھوڑے وہ دروازہ کھول کر باہر آیا۔
ایمان کے ارادے کی خطرناکی کا احساس ہوتے ہی اس کے وجود میں جیسے بجلی بھر گئی تھی۔ اگلے ہی چند لمحوں میں اس نے ایمان کو جالیا تھا۔ اس کا بازو پکڑتے ہی ایک زناٹے کا تھپڑ اس کے چہرے پر دے مارا۔
” اتنا شوق تھا خودکشی کا تو چھ سال کا عرصے تھا تمہارے پاس، یا پھر میرے ساتھ ہی یہ دشمنی بھی نکالنی تھی؟۔۔۔۔۔ “
اسے وحشت بھرے انداز میں اپنے ہاتھوں میں بھینچے وہ غرا غرا کر بولا تھا۔ تیز چلتی ہوا سے پھڑ پھڑاتے ایمان کے دوپٹے نے کچھ ہواؤں کی شوریدہ سری نے ولید کے الفاظ فضاؤں میں گم کر دیے تھے، مگر ان کی بازگشت ایمان کی سماعتوں میں گویا ہمیشہ کے لئے ٹھہر گئی تھی۔
تضحیک اور اہانت کے احساس نے اس کے بھرے وجود کو کچھ اور بھی وحشت عطا کر ڈالی۔ وہ اس کے حصار میں ماہی بے آب کی طرح مچلی۔
” چھوڑ دیں مجھے مجھے زندہ نہیں رہنا۔“ وہ تڑپ تڑپ کر روئی تھی۔
” واپس چلو! اپنے اس شوق کو گھر جا کے پورا کر لینا۔ ڈونٹ وری …! بہت سے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں خودکشی کے ۔“
وہ اس کا بازو پکڑے پھنکار کر بولا اور گھسیٹتا ہوا اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ ایمان ایک دم گم سم ہوگئی۔۔۔۔
![]()

