اپنی بیوی کو کسی اور کا محتاج نہ بنائیں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل) ہر ماہ بیوی کا ذاتی خرچ لازمی دیا کریں۔ہمارے معاشرے کے اکثر گھروں میں یہ معاملہ پایا جاتا ہےکہ اگر بیوی شوہر سے جیب خرچ کے لیے کچھ پیسوں کا مطالبہ کرے تو جواب ملتا ہے:”تم کیا کرو گی پیسوں کا؟
ہر چیز تمہیں مل تو جاتی ہے،
سب کچھ لا کر دیتا ہوں،
جو منگوانا ہو بتا دو، میں لا دوں گا،
فضول پیسے نہیں میرے پاس!”
مطلب دنیا بھر کی تقریریں شروع ہو جاتی ہیں
مگر مجال ہے کہ کچھ پیسے نکال کر
بیوی کے ہاتھ میں رکھ دیے جائیں۔
پھر وہ بیچاری مجبور ہو کر کبھی ماں باپ سے،
کبھی بہنوں سے، کبھی دوستوں سے ادھار مانگتی ہے۔
واللہ! میری سمجھ سے باہر ہے
کہ شوہر حضرات یہ کیسے گوارہ کر لیتے ہیں
کہ ان کی بیوی دوسروں سے پیسے مانگتی پھرے؟
وہ بھی انسان ہے،
اس کی بھی ضروریات ہیں،
اس کا بھی کہیں کچھ خرچ کرنے کو دل چاہتا ہوگا،
اپنی پسند کی کوئی چیز خریدنے کا دل کرتا ہوگا،
اپنے والدین یا بہن بھائی کو کچھ دینے کا دل کرتا ہوگا،
صدقہ و خیرات کرنے کا دل کرتا ہوگا،
اور یہ بھی چاہتا ہوگا کہ اس کے پاس کچھ پیسے ہوں
جو کسی مجبوری میں کام آ سکیں۔
وہ آپ کے لیے اپنا گھر، ماں باپ، بہن بھائی سب چھوڑ آئی،
اپنی زندگی آپ کے حوالے کر دی،
اب وہ خود کمانے تو کہیں جاتی نہیں،
تو اس کی جملہ ضروریات آپ کے ذمے ہیں۔
ہم باہر دوستوں کے ساتھ ہزاروں روپے اڑا دیتے ہیں،
لیکن جب بیوی کچھ پیسے مانگ لے
تو طرح طرح کی باتیں سنانے لگتے ہیں۔
ہر ماہ اپنی استطاعت کے مطابق
بیوی کے لیے جیب خرچ متعین کریں۔
جب بھی تنخواہ ملے،
دو ہزار، پانچ ہزار، دس ہزار،
جتنی آپ کی گنجائش ہو، بیوی کو دے دیا کریں۔
اور یاد رکھیں!
ان پیسوں کا حساب مت لیں کہ کہاں خرچ ہوئے؟
کتنا خرچ ہوا؟ کیوں خرچ ہوا؟
نہیں! بالکل نہیں!
یہ پیسے اس کی مرضی کے ہیں،
جہاں چاہے، جیسے چاہے، خرچ کرے۔
بیوی سے جیب خرچ کا حساب مانگنے سے
بداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
بیوی کے ساتھ سخاوت کا مظاہرہ کریں،
بخیل نہ بنیں۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
“اگر ایک دینار تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو،
ایک دینار غلام آزاد کرنے کے لیے خرچ کرو،
ایک دینار مسکین کو صدقہ دو،
اور ایک دینار اہل و عیال پر خرچ کرو،
تو سب سے افضل وہ دینار ہے
جو اہل و عیال پر خرچ کیا گیا ہو۔”