Daily Roshni News

اپنے بچوں کے مزاج کو سمجھئے۔۔۔ماؤں کے لئے خصوصی تحریر۔۔(قسط نمبر2)

اپنے بچوں کے مزاج کو سمجھئے

ماؤں کے لئے خصوصی تحریر۔۔

(قسط نمبر2)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اپنے بچوں کے مزاج کو سمجھئے) کو خواہ مخواہ کے ڈر لاحق ہوجاتے ہیں۔ اندھیرے کا خوف، خواب میں ڈر جانا، خوفناک فلم دیکھ کر ایک عرصے خوف میں مبتلا رہنا وغیرہ۔  یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی چیز سے بچے  کو نقصان پہنچ جائے تو  وہ آئندہ ایک طویل عرصے تک  اس سے ڈرنے لگتا ہے مثلاً چھری، گرم استری، قینچی وغیرہ۔ ایک بچہ تو پیاز کے چھلکوں سے بھی ڈر جاتا تھا۔ یعنی کوئی بھی شئے اگر غیر حقیقی یا غیر فطری طور پر ایسے بچوں کےسامنے آجائے تو وہ اس سے بھی ڈر سکتے ہیں۔  بعض بچوں میں اس طرح کے خوف عمر بڑھنے کے بعد بھی اکثر قائم رہتے ہیں۔

یہ بات بھی مشاہدے میں آتی ہے کہ بچوں کو ڈرپوک اور بزدل بنانے میں اکثر والدین اور بہن بھائیوں کا بھی ہاتھ   ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے  عموماً خواتین چھپکلی، لال بیگ اور چوہوں وغیرہ سے ڈرتی ہیں۔ یہ ڈر  بعض اوقات اس قدر  شدید ہوتا ہے کہ وہ انہیں دیکھ کر چیخیں مارنا شروع کردیتی ہیں۔ انہیں اس وقت تک سکون نہیں ملتا جب تک گھر کا کوئی فرد چھپکلی یا لال بیگ کو مار نہ دے۔ اگر مارنے کی مہم ناکام ہوجاے اور لال بیگ یا چھپکلی کہیں چھپ کر بیٹھ جائے تو پھر وہ پوری رات خوف میں مبتلا رہتی ہیں اور بےچین ہو کر کروٹیں بدلتی رہتی ہیں۔ بچہ جب یہ محسوس کرتا ہے کہ ان کے بڑے بھی ان سب  چیزوں سے ڈرتے ہیں تو اس کے ذہن میں بھی یہ خوف منتقل ہوجاتا ہے کہ یہ چیزیں خطرناک ہیں…. بڑوں کو چاہیے کہ وہ خود بھی ایسے خوف سے باہر آئیں تاکہ بچوں کے خوف کو دور کرسکیں…. بھئی ذرا پہلے  آپ خود کو دیکھیں اور پھر چھپکلی، لال بیگ اور چوہے وغیرہ کو…. کیا اوسطاً پانچ فٹ کچھ انچ کے انسان کو چند انچ کے ان کیڑے مکوڑوں سے ڈرنا زیب دیتا ہے….

ذہین بچے:

 ایسے بچے جو ہر سال امتحان میں نمایاں نمبروں سے پاس ہوتے ہیں، ٹیچرز کی ہر بات بہت جلدی سمجھ لیتے ہیں، جو کچھ پڑھتے ہیں وہ جلد  ذہن نشین بھی کرلیتے ہیں، ہر بات کو بہت  گہرائی میں جاکر سوچتے ہیں، ہر موضوع پر طویل گفتگو  کرسکتے ہیں، ماں باپ، بہن بھائیوں کے علاوہ اپنے ٹیچرز اور دیگر عزیز و اقارب سے اعتماد کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں، ایسے بچے  اپنے مزاج کے اعتبار سے ذہین بچوں کی لسٹ میں آتے ہیں۔ بچوں کو ایسی گراں قدر صفات کا حامل بنانے میں والدین اور اساتذہ کی اچھی تربیت کا بھی بہت ہاتھ ہوتا ہے۔  اس طرح کے بچوں کو تعلیمی میدان کے علاوہ پریکٹیکل زندگی کے متعلق بھی رہنمائی فراہم کی جانی ضروری ہے۔

بےوقوف بچے:

ایسے بچے عموماً کم گو، گم سم رہنےو الے ، شرمیلے ہوتے ہیں۔  یہ بچے ذہین بچوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ یعنی تعلیمی میدان میں پیچھے رہتے ہیں، کھیلوں سے تو عموماً انہیں دلچسپی ہی نہیں ہوتی، ٹیچرز ان کو سمجھاتے  سمجھاتے تھک جاتے ہیں لیکن بات ان کے ذہن نشین ہی نہیں ہوتی…. ایسے بچوں کو والدین اور اساتذہ کی بھرپور توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین، اساتذہ اور دیگر عزیزوں کو ان کے  قریب آکر بھرپور پیار اور محبت سے ان کی مدد اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ عدم توجہ یا احساس کمتری کی وجہ سے ایسے بعض بچے بےوقوفی کی حد تک کند ذہن ہوجاتے ہیں۔

آرٹسٹ بچے:

چار پانچ بچیوں نے شام کے وقت گھر کے ایک کمرے کو کلاس روم بنا دیا۔ دیوار پر آویزاں تصویری فریم کو الٹا کر کے بلیک بورڈ کا کام لیا جارہا ہے جس کے ساتھ ایک بچی ایک  ہاتھ میں کتاب اور ایک ہاتھ میں اسٹک لیے کھڑی تھی اور باقی بچیاں نیچے بیٹھی ہوئی تھیں۔ ‘‘تو ہم آج کا سبق شروع کرتے ہیں’’…. بلیک بورڈ کے ساتھ کھڑی بچی نے جو اس وقت ٹیچر بنی ہوئی تھی، کلاس شروع کی۔

‘‘لیکن شمائلہ پہلے مس رضیہ کی طرح چشمہ تو لگاؤ….’’ اسٹوڈنٹ بچیوں میں سے کسی ایک نے کہا تو وہ  ‘‘اچھا ہاں!’’ کہتی ہوئی فوراً چشمہ ڈھونڈنے لگی۔ اس طرح ہمیں پتہ چلا کہ یہ کمبائن اسٹڈی نہیں بلکہ اپنی کلاس ٹیچر کی نقل اتاری جارہی ہے۔  اس نے ایک چشمہ پہن کر پھر کچھ کہا تو دوسری بچی نے فوراً مداخلت کی ‘‘یہ چشمہ تمہارے چہرے پر سوٹ نہیں کر رہا، مس رضیہ تو اپنے منہ سے بڑا چشمہ لگاتی ہیں’’…. پھر اس نے اپنے منہ سے بڑا اور اپنی ٹیچر کے حلیے سے ملتا جلتا چشمہ پہن کر بولنا شروع کیا ‘‘ہمیں بچوں سے پیار کرنا چاہیے، ان کا خیال رکھنا چاہیے۔  اللہ میاں بھی ان لوگوں کو پسند کرتے  ہیں جو بچوں سے نرمی اور پیار سےپیش آتے ہیں۔’’ اس دوران بار بار وہ اپنی ناک کو مخصوص انداز میں سیکٹر رہی تھی شاید یہ بھی ان کی مس کا اسٹائل ہو۔ سب بچیاں اس کی اداکاری سے لطف اندوز ہو رہی تھیں اور شمائلہ بولے جارہی تھی….

اے گڑیا تمہاری توجہ کہاں ہے، یہ کیا کھسر پھسر لگا رکھی ہے۔  چلو اپنی بینچ پر کھڑی ہوجاؤ’’….

یہ حکم صادر کرتے ہوئے اس نے گڑیا کے ہاتھ پر اسٹک بھی ماری۔ کیا یہ بھی ان کی کلاس  ٹیچر کی شخصیت کا خاصا تھا….؟

بچے ہر رویے کو محسوس کرتے ہیں خواہ وہ مثبت ہوں یا منفی…. اور اس کا اظہار کسی بھی طریقے سے کردیتے ہیں۔

اس واقعے سے ایک بات کی نشاندہی مزید ہوتی ہے کہ بعض بچوں کے اندر کہیں نہ کہیں ایک آرٹسٹ چھپا ہوا ہوتا ہے جو زندگی کے کرداروں اور واقعات پر غور و فکر کرکے کسی نہ کسی کینوس پر پیشکرتا ہے۔

ایسے بچے جمالیاتی ذوق کے مالک ہوتے ہیں۔ اداکاری، شعر و ادب اور آرٹ میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کی اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں پھولوں اور خوبصورت مناظر کی تصاویر لاکر دی جائیں۔  ڈرائنگ اور پینٹنگ کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔ اسکول کے ڈراموں اور دیگر تقریبات میں حصہ لینے پر حوصلہ افزائی کی جائے۔

معصوم بچے:

ایک دن ہمارے خاندان کے بہت سے افراد  ماموں کے گھر بیٹھے ان کی شادی کی البم دیکھ رہے تھے۔ سب لوگ تصویریں دیکھ کر پرانی یادیں تازہ کررہے تھے۔   کچھ یہ کہہ رہے تھے  کہ ہم پہلے کتنے چھوٹے تھے اور اب کتنے بڑے ہوگئے ہیں، اس وقت کے دلچسپ واقعات سنا رہے تھے اور انجوائے کر رہے تھے کہ اچانک ہمارے ماموں کے بیٹے نے جو اس وقت بمشکل چھ سال  کا تھا، اسے اس البم میں اپنی کوئی تصویر نظر نہیں آئی، وہ کہنے لگا میں بھی تو اس وقت بہت چھوٹا ہوں گا….؟’’

 اس کے لہجے میں اس قدر معصومیت تھی کہ سب ہی بےساختہ ہنس پڑے،  خود ممانی جان بھی چہرے پر  ہاتھ رکھ کر ہنس رہی تھیں۔ اس کے سوال کا جواب تو کسی کے پاس نہیں تھا مگر اس کی معصومیت پر قربان جانے کو دل چاہ رہا تھا۔

جو بچے معصوم ہوتے ہیں ان کی شرارتیں بھی بڑی معصوم سی ہوتی ہیں۔

بچوں کی ہر سطح پر تربیت ضروری ہے ان کو مذہبی، علمی، عملی، اخلاقی، سائنسی، معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور فنی علوم کے حوالے سے بھرپور تربیت دیں اس تربیت کے دوران  اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ بچے کی معصومیت ختم نہ ہونے پائے…. دیکھا گیا ہے کہ بعض بچے جو اپنی عمر سے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، بعض اوقات وہ تشدد پسند یا تکلیف دہ حد تک شرارتی ہوجاتے ہیں یا کسی اور بری عادت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بچے کی معصومیت اس کا زیور  ہوتی ہے۔ چہرے کا یہی حسن اور بھولپن اس کو ممتاز اور نمایاں کرتا ہے۔ اس معصومیت کی حفاظت بچے سے جڑے ہر فرد کا اہم نصب ا لعین  ہونا چاہیے۔

بچوں کا مزاج خواہ جیسا بھی ہو، معصومیت ہر بچے میں ہوتی ہے۔ جس طرح ایک اداکار اپنے سین کی ڈیمانڈ کے مطابق اپنے چہرے کے تاثرات  بدلتا ہے بلکہ اسی طرح بچے بھی موقع محل کی مناسبت سے اپنے مزاج میں تبدیلی لاتے ہیں لیکن  ہر بچے کا اپنا ایک مخصوص مزاج ضرور ہوتا ہے۔

بچوں کی اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مزاج کے اتار چڑھاؤ کو سمجھا جائے اور جس وقت جو مزاج ان پر غالب ہو اسی کو مد نظر رکھ کر تربیت کی جائے۔ اس کے لیے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو وقت دیں تاکہ وہ آپ کی محبت کو محسوس کرسکیں، آپ کی شخصیت کےمثبت پہلوؤں سے روشناس رہیں اور انہیں اپنے تحفظ کا احساس ہوتا رہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت اپنے دور کے مطابق نہ کرو بلکہ آنے والے وقت کے لحاظ سے کرو کیونکہ انہیں ایسے زمانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے جو تم سے مختلف ہے۔  

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2021

Loading