Daily Roshni News

اگر تم ساتھ دو گے تو میں بھی تمہارا ساتھ دوں گی۔

اگر تم ساتھ دو گے تو میں بھی تمہارا ساتھ دوں گی۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز  انٹرنیشنل )جیسے تم اب میرا ساتھ دے رہی ہو ، کیا عمر بھر اسی طرح ساتھ دے سکو گی ؟ میں نے جواب میں لکھ دیا۔ ہاں، ہم زیادہ دیر چھت پر نہیں رکتے تھے۔ مبادا امی کو شک ہو جائے۔ وہ بھی ایسا لڑکا نہ تھا جو کسی لڑکی کو برائی پر اکساتا۔ محبت کی آگ کی چنگاری نے اپنا رنگ دیکھایا اور ایک دن امی نے ہمیں دیکھ لیا۔

ہم ایسے شہر میں رہتے تھے ، جہاں کالج میں لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ اس تھوڑی سی آبادی والے شہر میں صرف یہی ایک کالج تھا، لہٰذا مجھے مجبوراً کو ایجو کیشن میں داخلہ لینا پڑا۔ اس کالج میں حبیب بھی زیر تعلیم تھا۔ یہ لڑکا مجھ سے ایک سال بڑا ہو گا، گرچہ ہم پڑوسی تھے لیکن میں اس سے بات نہیں کرتی تھی۔ جب سے یہ لوگ ہمارے پڑوسی ہوئے تھے، میں نے کبھی اس سے بات نہ کی تھی، لہٰذا یہ حجاب کالج میں بھی برقرار تھا۔ یہ چھٹی کا دن تھا۔ میں نے کپڑے دھو کر چھت پر بندھی الگنی پر ڈالے ہی تھے کہ کچھ دیر میں آسمان ن پر پر گھنے بادلوں سے ڈھک گیا اور موسم سہانا ہو گیا۔ گھرے ہوئے بادل دیکھ کر مجھے دھلے ہوئے کپڑوں کی فکر ہوئی، سو دوبارہ ترنت چھت پر پہنچی اور کپڑے اتار کر ٹوکری میں رکھنے لگی، تب ہی میری نظر پڑوس کی چھت پر موجود حبیب پر پڑی۔

وہ بھی اپنے گیلے کپڑے اتارنے آیا تھا۔ شاید اس کی ماں نے اسے اوپر بھیجا تھا۔ گھٹنوں کی مریضہ ہونے کے سبب وہ زینہ چڑھنے سے قاصر تھیں، بہر حال میں نے حبیب کی طرف توجہ نہ دی۔ جب میں ٹوکری اٹھا کر اپنے زینے کی جانب مڑی تو اس نے منڈیر کے قریب آکر آواز دی۔ سنو شاہانہ ! وہ بولا۔ مجھے کچھ نوٹس درکار ہیں، اگر آپ کے پاس ہوں تو براہ کرم چھت کی منڈیر پر رکھ دیں، میں اٹھا لوں گا۔ میں نے منہ اوپر کر کے بادلوں کی طرف دیکھا اور مسکرادی۔ وہ سمجھ گیا کہ بارش ہونے کو ہے ، اگر نوٹس بھیگ گئے تو ، تب ہی اس نے کہا۔

بارش نہ ہو تو رکھ دیجئے گا۔ میں اچھا کہہ کر زینہ اتر آئی۔ سوچا کہ ممکن ہے اس کو نوٹس فوری طور پر درکار ہوں ،اس سے ایک کلاس آگے یعنی فائنل میں تھی اور کل ہی پچھلی کلاس کے نوٹس نکال کر ایک جانب رکھ دیے تھے ، کہ یہ اب میرے لیے بے کار تھے۔ میرے دل کے اندر موجود نیکی نے میرے ضمیر سے کہا۔ ان نوٹس کو ردی میں پھینکنے سے تو بہتر ہے اس کو ہی دے دوں، جس کو اس کی ضرورت ہے۔ کسی ضرورت مند طالب علم کے کام آجائیں گے ، تو اچھا ہے۔ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ اسی وقت میں نے نوٹس کا پلندہ اٹھایا اور جا کر منڈیر پر دھر دیا۔

اب دل پر بار بار یہ خیال بجلی کی طرح گزرتا تھا کہ جانے اس نے نوٹس اٹھائے یا نہیں۔ دوپہر کو چھت پر جا کر جھانکا۔ شکر ہے بارش نہ ہوئی تھی، مگر بنڈل اسی طرح موجود تھا۔ دل میں آیا کہ واپس اٹھا لوں لیکن پھر ایسا نہ کر سکی۔ ایک عجیب سی بے چینی شام تک دامن گیر رہی، تمام دن کسی کام میں دل نہ لگا۔ دھیان اسی بنڈل کی جانب ہی لگا رہا، جو پڑوسی کی منڈیر پر دھرا تھا۔ سوچ رہی تھی اگر اس نے نہ اٹھایا تو امی کو کہوں گی اسے دے دیں۔ پانچ بجے شام کام سے فارغ ہو کر پھر بنڈل دیکھنے چھت پر آ پہنچی، جہاں حبیب میرے انتظار میں موجود تھا۔ اس نے مجھے پہلے تو سلام کیا اور پھر شکریہ کہا۔

کوئی بات نہیں، میرے لیے تو یہ نوٹس اب بے کار تھے ، آپ کے کام آجائیں تو اچھی بات ہے۔ یہ کہہ کر میں جلدی سے ز ینہ اتر کر صحن میں آ گئی اور وہ کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ ان دنوں ہم آٹھ افراد اپنے گھر میں ایک پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ میں اپنی دو بہنوں سے بڑی تھی۔ میرا ایک بھائی بڑا اور دو چھوٹے تھے۔ ہم سب بہن بھائیوں میں میں بہت محبت تھی۔ ہمارا یہ ذاتی گھر تھا، جس میں برسوں سے ره رہے تھے لیکن ہم لڑکیاں پڑوس میں کہیں آتی جاتی نہیں تھیں۔ اگر کبھی ضرورت پڑتی، خوشی غمی کے موقعوں پر امی ہی اڑوس پڑوس میں جاتی تھیں۔ تب ہی میں اب تک حبیب کے گھر بھی نہیں گئی تھی۔ اس واقعے کے پورے تین ماہ تک میں گھر میں سمٹ کر بیٹھ گئی اور کبھی حبیب سے رابطہ نہ کیا۔ اس دوران اس نے کالج میں ایک دو بار مجھ سے بات کرنی چاہی مگر میں نے موقع ہی نہ دیا۔ وہ فطرتاً شریف اور اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے والد کا کافی عرصہ قبل انتقال ہو چکا تھا۔

 ماں نے اسے بڑی دقتوں سے پالا تھا۔ اس کے ماموں ، اپنی بیوہ بہن کی مالی مدد کیا کرتے تھے ، تب ہی حبیب امیر زادوں جیسا لاڈلا یا آوارہ مزاج نہ تھا۔ وہ لاپروا قسم کا لڑکا نہیں تھا، اسے اپنی والدہ کی بیوگی اور حالات کی سنگینی کا خوب احساس تھا۔ وہ محنت سے دل لگا کر پڑھ بھی رہا تھا۔ اس کی شرافت کو دیکھ کر ہی میرے دل میں اس کی عزت بنی تھی۔ حبیب کی والدہ کبھی کبھار ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔ ایک دن انہوں نے باتوں باتوں میں بتایا کہ حبیب کا ہاتھ جھلس گیا ہے۔ تب ہی امی نے سوچا کہ پڑوسن ہیں، جا کر ان کے لڑکے کو پوچھ آنا چاہیے۔ چونکہ میرے دل میں اس کے لیے خاص جگہ بن گئی تھی، اسی وجہ سے میں نے کہا۔ امی میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔ امی نے اعتراض نہ کیا، بولیں۔ ٹھیک ہے ، چلی چلو – امی ، حبیب سے باتیں کرنے لگیں تو مجھے بھی اس سے بات کرنے کا موقع ملا۔ پوچھا کہ تمہارا ہاتھ کیسے جھلسا ؟ وہ کہنے لگا۔ امی کے گھٹنوں میں درد رہتا ہے۔

ان کو پکانے میں دقت ہو رہی تھی۔ سوچا کہ میں ناشتہ بنا لوں، بس اس طرح ہاتھ پر شعلے کی لپک لگی ، چولہا جلاتے ہوئے مجھلس گیا۔ مجھے دکھ ہوا کہ امتحان نزدیک تھے اور اس کے سیدھے ہاتھ میں تکلیف تھی۔ سوچا، یہ کیسے لکھ پائے گا اور کیونکر پیپر دے گا۔ اب اس کی بے بسی پر میرا دل موم کی طرح پگھل گیا۔ جانے دل میں کیا آیا کہ میں نے ایک رقعہ لکھا اور آخر کار اس خاردار راستے کا انتخاب کر لیا، جس پر چل کر لوگ ہمیشہ زخمی ہی ہوتے ہیں۔ رقعے میں ، میں نے لکھا تھا۔ اگر تمہارے ہاتھ میں زیادہ تکلیف ہے ، تم چاہو تو پریکٹیکل جنرل مجھ سے لکھوا لو۔ میرے پاس اپنا موجود ہے ، مجھے تمہارا جنرل بنانے میں دقت نہ ہو گی۔ چونکہ ہمارے مضمون ایک تھے ، اس لیے میں اس کی مدد کر سکتی تھی۔ جواب میں اس نے شکریہ لکھا اور جب میں صحن میں بیٹھی تھی، اس نے اپنے گھر کی چھت سے یہ رقعہ ہمارے صحن میں پھینک دیا۔

میں نے فورا اٹھایا، کھول کر پڑھا۔ لکھا ہوا تھا، جیسے تم اب میرا ساتھ دے رہی ہو ، کیا عمر بھر اسی طرح ساتھ دے سکو گی ؟ میں نے جواب میں لکھ دیا۔ ہاں، اگر تم ساتھ دو گے تو میں بھی تمہارا ساتھ دوں گی۔ لکھنے کو تو یہ بات لکھ دی، پھر بہت پشیمان کے بھی ہوئی کہ جس راہ کو جانتی نہیں، کیوں اس پر قدم رکھ دیا۔ کسی کو ہم سے سفر بنانے سے پہلے آزمانا تو چاہیے تھا کہ یہ عمر بھر ساتھ دے بھی سکے گا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہمارے در میان با قاعدہ رقعہ بازی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ (آگے پڑھنے کےلئے مکمل کہانی کا لنک اوپن کریں)

Loading