Daily Roshni News

اہل عقل کے لیے آئینہ۔۔۔ تحریر ۔۔۔عیشا صائمہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔اہل عقل کے لیے آئینہ ۔۔۔تحریر۔۔۔عیشاصائمہ)پاکستان جو اسلام کے نام پر قائم ہوا  اور اس کے بانی قائد اعظم نے ہمارے الگ نظریئے کی بنیاد پر ایک مملکت کے وجود کے لیے انتھک کوشش کی جس کا خواب علامہ اقبال (رح) نے دیکھا تھا اس مملکت کا وجود ناگزیر اس لیے تھا کہ مسلمان اپنے اس وطن میں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں ۔ایک ملک کا قیام بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن لگ رہا تھا لیکن قائداعظم (رح) نے اسے یقینی بنا کر دنیا کے نقشے میں  پاکستان جیسی مملکت کاوجود ممکن بنا دیا –  جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے پکارا گیالیکن آج یہی مملکت ایسے حالات سے دوچار ہے جس میں اسلام کے اصولوں کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں

اور عوام کو اتنا تنگ کر دیا گیا ہے کہ وہ

زندہ رہنے کی بجائے موت کو ترجیح دے رہے ہیں اس ارض پاکستان کے سربراہان جو اس ملک پہ حکومت کرنے اور مزے لوٹنے کے بعد بھی اس سے مخلص نظر نہیں آتے جنہیں صرف اپنے خزانے بھرنے، زندگی کی سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے بعد بھی اس ملک کے لیے کوئی اہم پالیسیاں نہیں دے سکے ہیں جو عوام کے لیے ریلیف کا باعث ہوتیں – اس ارض پاک میں غریبوں کا رہنا بہت ہی دشوار کر دیا گیا ہے افسر شاہی نظام پنجے گاڑھے اس ملک کو نیست و نابود کر رہا ہے عام لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہے ہیں جبکہ افسران بالا اور حکومت چلانے والے بھاری بھرکم تنخواہوں کے باوجود زندگی کی ہر سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ان کو دی گئ سہولیات کا بوجھ بھی غریب عوام کے کاندھوں پر ڈال دیا گیا ہے موجودہ صورتحال میں

عوام سڑکوں پر آگئی ہے کہ اس شاہی افسری نظام کو ختم کیا جائے تاکہ عام لوگ بنیادی سہولیات کے لیے نہ ترسیں

لیکن ان حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے

سوداگروں کے کان میں جو تک نہیں رینگ رہی – کیا ان لوگوں نے صرف دنیا کے مزے لوٹنے ہیں؟ کیا ان کا دور دور تک اسلام سے کوئی تعلق نہیں؟ کیا اس اسلامی مملکت کو جس کے لیے ہزارہا قربانیاں دی گئیں ان  لوگوں نے صحیح معنوں میں اسلامی مملکت بنانے میں کوئی اہم کردار ادا کیا؟ کیا انہوں نے رب کو جواب نہیں دینا؟ وہاں کل جب یہ اللّٰہ کی عدالت میں پیش ہونگے تو اربوں انسانوں کی زمہ داری جو ان کے کاندھوں پر ہے اس کا جواب دے پائیں گے؟ لیکن نہیں یہ تو بے حس ہو چکے ہیں انہیں صرف اپنا آپ نظر آتا ہے غریب عوام جائے بھاڑ میں – کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو پیارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چل کر اعلی مثالیں قائم کر سکے – وہ بھی تو اعلیٰ شخصیات تھیں جنہوں نے بحیثیت انسان بھی اور بحیثیت حکومت کے نمائندے کے بھی اعلیٰ مثالیں قائم کر کے بتایا کہ انہیں دنیا سے زیادہ آخرت کا نفع عزیز تھا یہاں ایک واقعہ پیش کرنا چاہوں گی جو دور خلافت کا ہے –

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ تیسرے خلیفہ اور داماد رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے ان کے دور خلافت میں ایک بار اونٹوں کا قافلہ غلہ لے کر  مکہ آیا جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منگوایا تھا سب تاجروں نے کہا یہ سارا غلہ ہم پر بیچ کر ہم سے جتنا چاہیں منافع لے لیں جبکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تاجروں سے کہا مجھے تو کوئی دس گنا منافع دے رہا ہے تاجروں نے حیران ہو کر پوچھا اتنا منافع کون  دے رہا ہے تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ مجھے یہ منافع اپنا رب دے رہا ہے جس نے وعدہ کیا ہے ایک نیکی کے بدلے دس نیکیوں کا ثواب ملے گا – اور سارا غلہ مفت تقسیم کر دیا –

کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو عام طبقے  کی تکالیف کو سمجھ سکے اور ان کی داد رسی کر سکے –

شاید ایسے ہی حالات کے پیش نظر “احمد ندیم قاسمی” نے کہا تھا –

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

یہاں تو غریب کے لیے زندگی ایک جرم بن کر رہ گئ ہے نہ کوئی سنوائی ہے نہ داد رسی – بلکہ اپنی تجوریوں کی پیشگی حفاظت کے بندوبست کیے جاتے ہیں اپنی  آنے والی کئ نسلوں کے مستقبل کو عوام کے لہو سے روشن کیا جاتا ہے-بجائے غریبوں کو بنیادی سہولیات دینے ان کی زندگی کو سہل بنانے کی بجائے امیر طبقے کو غریب عوام کی حلال کی کمائی سے مراعات دی جا رہی ہیں جو کہ ناقابل معافی جرم ہے غریب کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے غریبوں کی تکلیف اتنی بڑھ گئ ہے کہ ان سے برداشت کرنا مشکل ہو گیا ہے اسی وجہ سے عوام  احتجاج کر رہی ہے  لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی مثبت فیصلہ سامنے نہیں آیا  حکمران طبقہ اپنی موت کو بھول چکا ہے اور یہ بھی بھول چکا ہے  کہ رب اپنی  سچی کتاب قرآن پاک میں کیا کہتا ہے –

 سورہ کہف میں اللّٰہ تعالی فرماتا ہے –

“تم  فرماؤ کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ سب سے بڑھ کر ناقص عمل کن کے ہیں ان کے جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں گم گئ اور وہ اس خیال میں ہیں کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں -“

Loading