Daily Roshni News

ایمانداری کا صلہ

کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا اسے طرح طرح کے پرندے اور جانور پالنے کا شوق تھا۔وہ سال میں ایک مرتبہ جانور اور پرندے پکڑنے خود بھی جنگل جاتا تھا۔اس کے پاس کئی طرح کے جانور اور پرندے تھے۔ایک مرتبہ بادشاہ جنگل گیا۔اس نے کئی اقسام کے طوطے اور دوسرے پرندے پکڑے۔بادشاہ کی نگاہ ایک ہرن پر پڑی۔اس نے پھندا ڈالنے کی رسی ہاتھ میں لی،اور گھوڑا دوڑا دیا۔

ہرن بھاگتا بھاگتا جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔بادشاہ کے ہاتھ نہیں لگا۔وہ ناامید ہو کر لوٹنے لگا لیکن راستہ بھول گیا۔
ہرن کے پیچھے پیچھے وہ بادشاہ اپنے ساتھیوں سے نہ جانے کتنی دور آگیا تھا۔اس کے چاروں طرف پیڑ ہی پیڑ تھے۔اس نے سوچا یہاں جنگل میں رکنا ٹھیک نہیں ہے۔کسی ایک سمت آگے بڑھوں۔شاید راستہ مل جائے اور شاہی محل پہنچ جاؤں یا اپنے ساتھیوں سے جا ملوں۔

یہ سوچ کر بادشاہ ایک سمت چل پڑا۔بادشاہ کو چلتے چلتے بہت دیر ہو گئی،مگر کوئی راستہ اب تک نہیں ملا تھا۔سورج بھی غروب ہو رہا تھا۔سورج ڈوبنے سے پہلے بادشاہ کو ایک پگڈنڈی مل گئی۔وہ گھوڑا موڑ کر پگڈنڈی پر تیزی سے چلنے لگا۔
کچھ دوری پر اسے اُجالا نظر آیا۔بادشاہ اسی طرف بڑھتا گیا،قریب پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ ایک جھونپڑی کے آگے ایک کسان اور اس کی بیوی میٹھے ہوئے تھے۔

کسان بادشاہ کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا،ہکلاتا ہوا بولا”جہاں پناہ!․․․․آ․․․آپ․․․یہاں“ میں پرندے پکڑنے آیا تھا۔ایک ہرن کے پیچھے بھاگتے ہوئے راستہ بھول گیا ہوں۔اب رات میں یہیں گزارنا چاہتا ہوں،سویرے چلا جاؤں گا۔“بادشاہ بولا۔
کسان بے چین ہو کر بولا:”جہاں پناہ یہ سب آپ ہی کا دیا ہوا ہے۔مگر آپ یہاں کیسے ٹھریں گے؟میرے پاس تو ایک اچھا بستر بھی نہیں ہے“۔

تو کیا ہوا بادشاہ نے کہا۔”اگر میں کسان ہوتا تو کیا شاہی محل ہی کے ملائم بستروں پر سوتا․․․؟“
کسان نے بادشاہ کا گھوڑا ایک درخت سے باندھ دیا،اور اس کے کھانے کو کچھ گھاس بھی ڈال دی۔
بادشاہ نے آگے تاپتے ہوئے کسان سے پوچھا۔”تمہارا نام کیا ہے․․․․؟“
”میرا نام امانت ہے جہاں پناہ۔“
”اچھا کچھ کھانے کا سامان ہو تو لے آؤ بھوک لگ رہی ہے۔


”جناب!میرے پاس آپ کے کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے چند سوکھی روٹیاں ہیں ،وہ آپ کھا نہیں سکتے“۔
”میں کھا لوں گا تم لے آؤ۔“
کسان حیرت زدہ سا،صبح کی بنی ہوئی روٹیاں لے آیا۔بادشاہ نے روٹی کھا کر پانی پیا اور خدا کا شکر ادا کیا۔تھکاوٹ کی وجہ سے اُسے جلد ہی نیند آگئی۔صبح جانے کی تیاری کرتا ہوا بادشاہ سے بولا۔

”امانت!تم کبھی محل کی طرف آؤ تو مجھ سے ضرور ملنا۔اب راستہ بتا دو،میں چلوں“۔
امانت جب بادشاہ کو راہ دکھا کر لوٹا تو اس نے بیوی کے ہاتھ میں سونے کی زنجیر دیکھی۔بیوی بولی۔”جس جگہ بادشاہ سلامت سوئے تھے، وہاں یہ پڑی تھی“۔کسان نے بیوی کے ہاتھ سے زنجیر لے لی اور بولا۔”جلدی سے دو چار روٹیاں بنا دو میں ابھی شاہی محل جانا چاہتا ہوں“ ۔

”کیوں․․․․؟“
”آئی ہوئی دولت کو کیوں ٹھکراتے ہو․․․․؟“اس کی بیوی بولی۔
”ہم نے کوئی چوری تھوڑے ہی کی ہے۔“
امانت نے زنجیر کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا اس میں ایک چمک دار ہیرا بھی لگا ہوا تھا۔بیوی کی بات سن کر وہ غصے سے بولا۔”اپنی زبان کو لگام دو۔ یہ زنجیر نہ تیری محنت کی کمائی کی ہے نہ میری محنت کی کمائی ہے،میں اسے ضرور واپس کرنے جاؤں گا۔

اب مزید کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ چپ چاپ روٹیاں بنا دو“۔
اسی دن شام تک امانت شاہی محل پہنچ گیا۔
پہرے دار نے اسے صدر دروازے پر ہی روک دیا۔وہ اسے اندر جانے نہیں دیتا تھا۔اس نے پہرے دار کی بہت خوشامد کی۔آخر میں اس نے کہا۔”اچھا مجھے اندر مت جانے دو۔بادشاہ سلامت سے اتنا کہہ دو کہ کل شام والا امانت آیا ہے“۔
پہرے دار مان گیا اور اس نے خبر اندر بھجوا دی۔

فوراً ہی امانت کو اندر بلوایا گیا۔امانت نے فرشی سلام کرنے کے بعد زنجیر بادشاہ کے سامنے رکھ دی۔بادشاہ خوش ہو کر امانت سے بولا۔”میں تمہاری ایمانداری سے بہت خوش ہوں۔یہ زنجیر میں نے جان بوجھ کر چھوڑی تھی“۔
”جی جناب!جان بوجھ کر․․․․؟“
”ہاں!میں تمہاری ایمانداری کا امتحان لینا چاہتا تھا۔تم کامیاب ہو گئے ہو۔اس لئے انعام کے مستحق ہو۔

دیکھو،ایسا ہے کہ شاہی محل میں ایک خزانچی کی ضرورت ہے۔میں تمہیں اس عہدے پر رکھنا چاہتا ہوں،کیا تمہیں منظور ہے․․․․؟“
جناب کا غلام ہوں،جو حکم دیں ،ویسے جہاں پناہ اس عہدے کے لائق میں نہیں ہوں۔پھر بھی آپ جو کہیں گے میں تعمیل کروں گا۔“
اور دوسرے دن امانت نے خزانچی کا عہدہ سنبھال لیا۔کسی نے سچ کہا ہے کہ ایمانداری کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔

Loading