Daily Roshni News

ایک نیا سفر شروع کرنا، چاہے وہ رشتہ ہو یا اپنی ذات کو سمجھنا

ایک نیا سفر شروع کرنا، چاہے وہ رشتہ ہو یا اپنی ذات کو سمجھنا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میرے گھر میں ہر طرف غم کا سایہ چھایا ہوا تھا۔ میری باجی کو بار بار دورے پڑنے لگے تھے جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں مسلسل مشکلات بڑھ رہی تھیں۔ ان کے اس مرض کی وجہ سے ان کی شادی کا رشتہ بھی ٹوٹنے کے قریب پہنچ گیا تھا اور میں بھی اپنی جوانی کے اُس سنگ میل پر قدم رکھ رہی تھی جہاں زندگی میں بہت کچھ بدلنے والا تھا۔ جب میری زندگی میں رشتہ کا معاملہ اٹھا تو اچانک میری باجی کو ایک اور شدید دورہ پڑا۔ اس نے میری خوشیوں کو جیسے چھین لیا ہو، اور یوں میرا رشتہ بھی ہوتے ہوتے رہ گیا۔

آپا کی منگنی کو سات برس ہو گئے تھے، مگر خرم بھائی وطن واپس آنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یو کے گئے اور پھر لوٹ کر نہ آئے۔ خالہ نے ابھی تک منگنی کے رشتہ کو قائم رکھا تھا، اور وہ مسلسل یہ امید لگا کر بیٹھیں تھیں کہ خرم بھائی واپس آئیں گے۔ تاہم، امی جان نے شروع میں دبے دبے انداز میں اور پھر واضح الفاظ میں کہنا شروع کر دیا کہ شمیم سچ بات بتادو، کیا تمہارا لڑکا میری بیٹی سے شادی نہیں کرنا چاہ رہا؟ اس صورت میں، منگنی ختم کر دو تاکہ ہم کسی اور جگہ رشتہ کر سکیں۔ خالہ نجانے کس امید میں جیتی جا رہی تھیں۔ بیلا آپا کی پیدائش کے وقت ہی خالہ شمیم نے یہ کہا تھا کہ شمیم میری بہو بنے گی، اور اس بات نے ایک خواب کی طرح ہمیں گلے لگا لیا تھا۔ جب بیلا آپا پندرہ برس کی ہوئیں تو خرم بھائی سے ان کی منگنی دھوم دھام سے کر دی گئی۔ وہ وقت تھا جب خرم بھائی خوش تھے، کیونکہ انہیں بیلا آپا پسند تھیں اور ماں کی خوشی بھی اہم تھی۔

یہ سوچا گیا تھا کہ جیسے ہی خرم بھائی تعلیم مکمل کر لیں گے، دونوں کی شادی ہو جائے گی۔ لیکن خرم بھائی نے اپنی تعلیم مکمل کی، انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور سعودی عرب جا کر ایک اچھی نوکری پائی۔ وہاں اس نے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ سعودی عرب میں نوکری کی تو وہ وہاں سے یو کے جانے کا موقع ملا اور پھر وہیں کا ہو کر رہ گئے۔ اب وہ واپس آ کر بھی کبھی ہمارے گھر نہیں آئے، بس رسمی ملاقاتوں تک ہی ان کا رابطہ محدود رہا۔ یہی حیرانی کی بات تھی کہ وہ شخص جسے بیلا آپا نے اپنی زندگی کا ساتھی سمجھا تھا، وہ بھی واپس آ کر انہیں وہ سپورٹ نہ دے سکا جس کا وہ لائق تھی۔

بیلا آپا کے دل میں خرم بھائی کے لیے محبت تھی، اور وہ ان کی یادوں میں ہی جیتی رہیں، مگر وقت کے ساتھ ان کی امیدیں ماند پڑنے لگیں۔ پانچ برس مزید گزر گئے اور بیلا آپا مایوس ہو گئیں۔ ان کی زندگی کے سب سے اہم لمحے ریت کی طرح ان کے ہاتھوں سے پھسلتے چلے گئے۔ تب ہی اماں جان نے خالہ شمیم کو بتائے بغیر دوسری جگہ رشتہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ ان دنوں میں نے ایف اے مکمل کیا تھا اور میری زندگی میں بھی تبدیلی آنے والی تھی۔ لیکن بیلا آپا کی حالت ایک دن اچانک بگڑ گئی۔ وہ کچھ دنوں سے دبی دبی اور چپ سی رہنے لگی تھیں اور ایک دن وہ بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔

امی نے ڈاکٹر کو بلا لیا، اور ڈاکٹر نے بتایا کہ انہیں مرگی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ دوا لینے کے باوجود بیلا آپا کو افاقہ نہ ہوا۔ وہ بے ہوش ہونے کے بعد جب ہوش میں آتیں تو انہیں کچھ یاد نہ رہتا تھا، وہ صرف کہتیں کہ نہ میں گری اور نہ بے ہوش ہوئی، بس سو گئی تھی۔ یہ صورتحال ہمارے لیے ایک معمہ بن چکی تھی اور ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اس کا حل کہاں سے آئے گا۔ مختلف ڈاکٹروں سے علاج کروا کر بھی کچھ حاصل نہ ہوا۔

پھر ایک دن پڑوسن نے مشورہ دیا کہ بیلا آپا کو پیر صاحب کے مزار پر لے جاؤ، وہاں ایسے مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ امی نے اس مشورے کو مانا اور ہمیں ساتھ لے کر دربار پہنچ گئیں۔ دربار میں جا کر کچھ وقت گزارا اور فاتحہ پڑھی۔ وہاں ایک عورت سے ملاقات ہوئی جس کا بیٹا ہمارے لیے کھانا لے کر آیا۔ یہ معمولی سی بات ہمارے لیے ایک نیا آغاز ثابت ہوئی۔ اس ملاقات نے ہماری زندگی میں ایک نیا رخ ڈالا۔ بیلا آپا نے اپنی حالت میں بہتری محسوس کرنا شروع کی اور ان کے دل میں نئی امید پیدا ہوئی۔

اس ملاقات کے بعد بیلا آپا کی طبیعت میں بہتری آنے لگی اور ان کی زندگی میں ایک نیا چمک نظر آیا۔ ان کے دل میں وہ خواب دوبارہ زندہ ہوئے جو کبھی خرم بھائی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ لیکن اب بیلا آپا نے یہ سمجھ لیا کہ زندگی کے اس سفر میں صرف دوسروں کا انتظار کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ ہمیں اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر اپنے راستے خود بنانا ہوتے ہیں۔ اس دن سے ان کے دل میں ایک نیا حوصلہ جاگ اٹھا، اور انہوں نے اپنی زندگی کے مقصد کو نئے سرے سے دریافت کیا۔

یہ کہانی صرف ایک رشتہ یا بیماری کی نہیں، بلکہ زندگی کے سچے معنوں کی ہے۔ بیلا آپا نے اپنے دوروں کا مقابلہ کیا، اپنے خوابوں کو دوبارہ زندہ کیا، اور آخرکار ایک نئی روشنی کی طرف قدم بڑھایا۔ زندگی کبھی بھی سادہ نہیں ہوتی، لیکن جب ہم مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، تو ہم نیا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ اس کہانی کا اختتام صرف اس بات پر نہیں ہوتا کہ بیلا آپا نے اپنے دکھوں کا سامنا کیسے کیا، بلکہ یہ بھی کہ ہم سب کے لیے زندگی کا مقصد کیا ہے—ایک نیا سفر شروع کرنا، چاہے وہ رشتہ ہو یا اپنی ذات کو سمجھنا۔

Loading