Daily Roshni News

ایک وقت آئیگا کہ ہر گھر سے ایک ناچنے والی نکلے گی۔ ۔ ۔

ایک وقت آئیگا کہ ہر گھر سے ایک ناچنے والی نکلے گی۔ ۔ ۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )یہ ہم لڑکپن میں بزرگوں سے سنتے تھے تو انکی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا تھا۔

ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟

ناچنے والی تو بہت واہیات ہوتی ہے۔ ۔

انڈین فلمیں دیکھی ہیں ؟ ، ، ، اس میں ایک ہیلن ہوتی تھی ۔ ۔

بس پوری فلم میں وہی ایک عورت نما ہیجڑا ہوتی تھی ۔ ۔

جو برے کردار کے مردوں سے پیسے لیتے ہوئے ناچتی تھی۔

ایسی عورت ہر گھر میں کیسے ہو سکتی ہے؟

ہم حیرانی سے سوچا کرتے تھے ۔

پھر وقت بدلتا گیا ۔ ۔

دوپٹے سروں سے سینوں پر آ گئے۔ ۔

شلواریں ٹخنوں سے اوپر جانے لگیں ۔ ۔

کوئی بزرگ روکتا ۔ ۔ تو ہم ہی راستے میں آ جاتے ۔ ۔۔

کیا ہوگیا ہے، اتنی حساسیت کیوں ۔ ۔ لڑکی ہے تو جان لو گے کیا ؟؟

جینے دو اس کو ۔ ۔ زرا سی ٹانگ ننگی ہو گئی تو کیا قیامت آ جائیگی۔ ۔

کچھ نہین ہوتا، فیشن ہے ۔ ۔ بس ۔ ۔ کالج میں زرا ماڈرن لک دینی ہوتی ہے۔ بچیوں کو ۔ ۔ اور کیا ۔ ۔ مائیں بھی بیک فٹ پر چلی جاتیں ۔ ۔

دوپٹے سینوں سے کاندھے پر چلے آئے۔  ۔  اور پھر غائب ہونے لگے۔ ۔

فیشن ہے ۔ ۔ فیشن ہے ۔ ۔

یہ جو فیشن ہوتا ہے نا ؟؟ یہ ایکسپٹنس کا لیکچر ہوتا ہے ۔ ۔

بلکہ لیکچر سے زیادہ اسٹرونگ کوئی چیز ۔ ۔ ۔ جیسے سن کر دینے والی کوئی دوا ۔ ۔

انسانی معاشرے میں حیا آہستہ آہستہ ختم کرو تو ہو جاتی ہے۔ یکدم کرو تو انسانی فطرت احتجاج کرتی ہے۔ ۔

تو فیشن بڑھتے گئے ۔ ۔ کپڑے گھٹتے گئے ۔ ۔

مقصد عورت سے اسکی فطری حیا چھین کر اس کو نچانا تھا۔ ۔

معلوم ہے برا لگے گا ۔ ۔ کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے ۔ ۔

پھر ڈیجیٹل دنیا آئی ۔ ۔ اسمارٹ فون نے اسمارٹ ٹی وی ہر ایک ایک ہاتھ میں دیدیا۔

سوچیے اگر حیا کو پہلے سے نہ ختم کر دیا گیا ہوتا ۔ ۔ تو ہزار ڈیجیٹل ٹک ٹوک آ جاتے ۔ ۔ کیا لڑکی اسکی اسکرین پر ناچتی ؟

جن کی حیا زرا سی سسک رہی تھی، وہ باقیوں کو ناچتے دیکھ کر ختم ہو گئی۔

جو پھر بھی ثابت قدم رہیں، ان کے لیے ناچنے والیوں کے انٹرویوز آ گئے ۔

ایک کروڑ، دو ، آٹھ، دس، پچاس کروڑ کمانے والے انٹریوز نے رہی سہی کسر نکال دی۔ ۔

فاقے کرنے والی کی بات چھوڑ دیں، ۔ ۔ وہ تو جسم بیچنے کو جائے تو اللہ کا اسکا معاملہ ۔ ۔ یہاں مڈل کلاس اور سفید پوش طبقے کی لڑکی جب دیکھتی ہے کہ کروڑوں کمانے والی کا حسب نسب کوئی نہیں پوچھتا ۔ ۔ تو اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ ۔

پھر معاشرے میں ڈراموں سے لے کر مغربی فیمنزم کی آڑ میں محض عورت کو رنڈی بنانے کا کام بھی جاری رہا ۔ ۔

چائینہ نے ایک ایپ دی ٹک ٹوک ۔ ۔ پھر اسٹریمنگ کی ایپس کا طوفان آ گیا ۔ ۔

مگر چائنہ نے اپنے ملک میں ایسی بے حیائی کو روک دیا، اور محض اپنے لیے مفید کانٹینٹ کی اجازت دی ۔ ۔

جبکہ ہمارے یہاں ٹک ٹوک، اور دیگر اسٹریمنگ ایپس پر عورت ناچنے لگی ۔ ۔

آج ان ایپس پر نوے فیصد ناچنے والی ویڈیوز کا بیک گراؤنڈ ایک گھر کا بیڈ روم یا لیونگ روم ہوتا ہے۔ ۔ اور ناچنے والی ایک گھریلو عورت ۔ ۔

ہر گھر سے ناچنے والی نکلے گی ۔ ۔  بات سچ ہو گئی ہے۔

Copied

Loading