Daily Roshni News

بابا تاج الدین اولیا ءؒ۔۔۔قسط نمبر(3)

بابا تاج الدین اولیا ءؒ

قسط نمبر(3)

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ بابا تاج الدین اولیا ءؒ)اس قدر پختہ ہوا کہ اس نے اسی وقت چیف کمشنر ناگپور بینجمن رابرٹس کے پاس نقد زر ضمانت جمع کرائی اور بابا صاحب سے عرض کہ آپ میرے ساتھ چلیے۔ بابا صاحب نے اس کی درخواست قبول کر لی۔ 21 ستمبر، 1908ء کو ناگپور کے مہاراجہ راگھوجی راؤ بھوسلے بابا صاحب کو بڑی دھوم دھام سے ہاتھی پر سوار کرا کے شکر درہ میں اپنے شاہی محل لے آیا۔ جہاں تمام اہل خانہ نے بابا صاحب کا استقبال کیا۔ مہاراجہ نے محل کے ایک حصے میں بنی “لال کو بھی ” آپ ” کے لیے مخصوص کر دی۔ راجہ خود صبح شام بابا صاحب کے پاس حاضری دیتے تھے ۔ لال کو ٹھی میں بھی ہر وقت عام لوگوں کا ہجوم لگا رہتا۔ مہاراجہ کی جانب سے ان عقیدت مندوں کے لیے دونوں وقت چائے اور کھانے کا اہتمام ہوتا۔ آج بھی یہ محل عوام کے لیے وقف ہے اور زائرین زیارت کے لیے دور دور سے آتے ہیں۔ چیف کمشنر بینجمن رابرٹس کی بھتیجی بہت شدید بیمار تھی۔ لندن میں ہر طرح کا علاج کروایا لیکن اس کے سر میں شدید قسم کا درد ہوتا تھا۔ اسے کسی طرح بھی آرام نہ آرہا تھا۔ بابا تاج الدین کا شہرہ سن کر وہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ رگھو راؤ نے ڈرتے ڈرتے بابا صاحب سے سوال کیا۔ چیف کمشنر را برنس آئے ہیں ۔ اگر اجازت ہو تو بلا لاؤں …؟” بلالے بلالے ، بے چارہ پریشان ہے، تاج الدین کسی کو نکورد کتا جی۔“ راجہ کے ہمراہ سر بینجمن ننگے پاؤں حجرے میں داخل ہوا …. باباجی نے بڑے اطمینان سے کہا … “تو کائے کو اتنا خرچہ کیا؟ بچی کو ناحق تکلیف دیا۔ بٹیا کو مٹی سنگھاتے ، اچھے ہو جاتے۔“ کوئی نہ سمجھ سکا بابا صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ بابا صاحب خواتین کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ دورازے کی جانب سر بینجمن کی میم اور جواں سال بھتیجی رگھوجی راؤ کی بیوی کے ہمراہ کھڑی تھیں۔ بابا نے ان کو دیکھا فوراً کھڑے ہوگئے . ” آجاؤ رے… رانی لڑکی کا ہاتھ پکڑے آگے بڑھی جس کے سر پر پٹی بندھی تھی۔

بابا! اس کے سر میں در درہتا ہے۔ لندن میں کسی بھی علاج سے فائدہ نہیں ہوا ہے۔ سر بینجمن نے اسے آپ سے دم کرانے کے لیے وہاں سے بلوایا ہے. وہ ایک ہی سانس میں پوری بات کہہ گئی۔

یہ تو پگلا ہے جی بچی کو تکلیف دیا۔ تاج الدین گو بولنا تھا ….“ پھر بڑی شفقت سے لڑکی سے بولے پریشان نکو ہوتے .. بیٹی۔ مٹی سونگھ لیتے۔

اچھے ہو جاتے۔ پٹی کھول دیتے” شفقت اور مٹھاس ان کے لہجے سے پھوٹی پڑتی تھی۔ لڑکی کچھ بھی نہ سمجھی۔ وہ اردو سے نا آشنا تھی۔ وہ حیرت بھری نگاہوں سے بابا کو دیکھ رہی تھی۔

” کو نسی مٹی۔ رگھوجی نے پوچھا ….“ بینجمن رابرٹس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ” یہ لائے گا جی۔ بچی کو سونگھا دے۔ جی اچھے ہو جاتے“۔ سر بینجمن رابرٹس بابا کی بات سمجھ گیا فوراً تھوڑی سی مٹی اٹھا لایا اور بچی کو اُسے سونگھ لینے کی ہدایت کی۔ مٹی کو سونگھتے ہی بچی کو تین چار چھینکیں آئیں بس بیٹی ! بس اب اچھے ہو گئے ۔

بابا صاحب نے فرمایا ۔ رانی نے بچی کے سر کی پٹی کھولی۔ درد سر بالکل غائب ہو گیا تھا …. فرط مسرت سے لڑکی کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ یہ سب لوگ سراپا تشکر اور سپاس بنے ہوئے تھے، سر بینجمن نے احساس تشکر کے ساتھ ساتھ بابا صاحب کی خدمت میں کثیر رقم پیش کی تو آپ کی پیشانی پر بل پڑگئے مگر آپ کے الفاظ میں بڑی نرمی تھی۔ بیٹی باپ کو نذرانہ نہیں، باپ بیٹی کو دیتا ہے. یہ کہا اور تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور چند سکے لڑکی کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ اس نے خوشی خوشی تحفہ قبول کر لیا اور وہ لوگ شاداں و فرحاں

رخصت ہو گئے۔ سر بینجمن کی بابا صاحب سے یہ ملاقات مہاراشٹر کے مسلمانوں کے حق میں بہت مفید ثابت ہوئی۔ سر بینجمن نے بڑی تعداد میں وہاں اسکول اور مدر سے قائم کیے ، مسلمانوں کی درس گاہوں کے لیے زمینیں فراہم کیں، عمارتوں کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کے لیے روز گار فراہم کرتے رہے۔ جبل پور میں مسلمانوں کا اسکول آج بھی رابرٹس انجمن اسلامیہ ہائی اسکول کے نام سے موجود ہے۔ انہوں نے وہاں ہزاروں مخالفتوں کے باوجود رابرٹس کالج بھی قائم کیا … ناگپور کا انجمن اسلامیہ ہائی اسکول بھی سر بسجن اور تاج الدین بابا کی اسی ملاقات کی یاد گار ہے۔ بابا تاج الدین ناگپوری 35 سال تک مخلوق خدا کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے اس دوران آپ سے بے شمار کرامات کا ظہور ہوا۔ 1343ھ کے اواخر بمطابق 1925ء کے بعد سے بابا تاج الدین کی طبیعت ناساز رہنے لگی۔ راجہ رگھو راؤ نے بابا صاحب کے علاج کے لیے ناگپور سے ماہر ڈاکٹر بلوائے، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔

 26 محرم الحرام بمطابق 17 اگست 1925ء بروز پیر ( چھیاسٹھ برس کی عمر میں مغرب کے وقت بابا نے ہاتھ اُٹھا کر ایک لمحے کے لیے دعا کی۔ پلنگ سے اُٹھ کر چاروں طرف دیکھا پھر سکون سے آنکھیں بند کر کے لیٹ گئے…. اسی حالت میں دار فانی سے کوچ فرمایا۔ چوبیس گھنٹے تک ہر مذہب و ملت کے لوگ آخری دیدار کے لئے آتے رہے پھر بھی ہجوم کم نہیں ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور اخبارات نے وصال کی خبر کو جلی حرفوں میں شائع کیا۔

آپ کا مزار تاج آباد (تاج باغ) امریڈ روڈ، ناگپور میں مرجع خلائق ہے۔ آپ کا عرس مبارک پاک و ہند اور دنیا میں جہاں جہاں آپ کے عقید تمند موجود ہیں انتہائی ادب و احترم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیاء قلندر بابا اولیائ رشتہ میں حضرت بابا تاج الدین کے نو اسے ہیں۔ بابا تاج الدین نے شادی نہیں کی تھی۔ آپ نے قلندر بابا اولیاء کی والدہ سعیدہ بی بی کو اپنی بیٹی بنا کر پرورش کی ، جو آپ کے چا زاد بھائی کی بیٹی تھیں۔ محمد عظیم بر خیا اسی نسبت سے بابا تاج الدین کو نانا کہا کرتے تھے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2019

Loading