Daily Roshni News

بابا کی تعریف۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد۔۔۔قسط نمبر1

بابا کی تعریف

تحریر۔۔۔اشفاق احمد

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ بابا کی تعریف۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد )میں یہ سمجھتا تھا کہ بابوں کی Definition سے یا ان کی تعریف سے آپ یقیناً بہت اچھی طرح واقف ہوں گے ، لیکن میرا یہ اندازہ صحیح نہیں تھا۔ اب میں آپ کی خدمت میں بابا کی ایک چھوٹی سی تعریفبھی بیان کرتا ہوں۔بابا وہ شخص ہوتا ہے جو دوسرے انسان کوآسانی عطا کرے۔اشفاتآپ کے ذہن میں یہ آتا ہو گا کہبابا ایک بھاری فقیر ہے۔ اس نے سبز رنگ کا کرتا پہنا ہوا ہے۔ گلے میں منکوں کی مالا ہے۔ ہاتھ میں لوگوں کو سزا دینے کا تازیانہ پکڑا ہوا ہے، اور آنکھوں میں سرخ رنگ کاسرمہ ڈالا ہے۔ایک تھری میں سوٹ پہنے ہوئے اعلی درجے کی سرخ رنگ کی ٹائی لگائے ہوئے۔ ایک بہت اعلیٰ درجے کا بابا بھی ہوتا ہے۔ اس میں جنس کی بھی قید نہیں ہے۔ مرد عورت بچہ ، بوڑھا ، او میٹر نوجوان یہ سب لوگ کبھی نہ بھی اپنے وقت میں بابے ہوتے ہیں، کچھ لوگ اس شیوے کو مستظلام اختیار کر لیتے ہیں۔ میری زندگی میں بابے آئے ہیں اور میں حیران ہوتاتھا کہ یہ لوگوں کو آسانی عطا کرنے کا فن کس خوبی سے کس سلیقے سے جانتے ہیں۔میری یہ حسرت ہی رہی۔ میں اس عمر کو پہنچ گیا۔ میں اپنی طرف سے کسی کو نہ آسانی عطا کر سکا، نہ کچھ دے سکا اور نہ ہی آئندہ کبھی اس کی توقع ہے۔

جب ہم تھر ڈایئر میں تھےتو کر پال سنگھ ہمارا ایک ساتھی تھا۔ ہم اس کو کر پالا کہتے تھے۔ بیچارہ ایسا ہی آدمی تھا جیسے ایک پنجابی فوک گانےوالا ہوتا ہے۔

ایک روز ہم لاہور کے انار کلی بازار میں جا رہے تھے۔ سٹیشنری کی دکانوں کے آگے ایک فقیر تھا۔ اس نے کہا بابا… اللہ کے نام پر کچھ دے ۔ میں نےکوئی توجہ نہیں دی۔ پھر اس نے  کر پال سنگھ کو مخاطب کر کے کہا کہاے بابا سائیں…. کچھ دے۔

کر پال سنگھ کہنے لگا کہ بھائی ….. اس وقت کچھ ہے نہیں، اور اس کے پاس واقعی نہیں تھا۔ فقیر نے بجائے اس سے کچھ لینے کے بھاگ کر اس کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور گھٹ کے چیبی (معانقہ) ڈال لی۔ کہنے لگا، ساری دنیا کے خزانے مجھ کو دیئے، تو نے مجھے بھاجی کہہ دیا۔ میں ترسا ہوا تھا اس لفظ سے۔ مجھے آج تک کسینے بھاجی نہیں کہا۔ ان دنوں ہم ہوٹل کے لڑکے چوری چھپے سینما دیکھنے جاتے تھے۔ لاہور بھائی کے باہر ایک تھیڑ تھا اسمیںں فلمیں لگتی تھیں۔ میںارواند، غلاممصطفی،کر پال ۔ ہم سب سینمادیکھنے گئے، رات کو لوٹے تو انار کلی میں بڑی یخ بستہ سردی تھی، وہ کر سمس کے قریب کےایام تھے ۔ سردی کے اس عالم میں کہرا بھی چھایا ہوا تھا۔ ایک دکان کے تختے پر پھٹا جو ہوتا ہے، وہاں سے ایک بڑھیا کی درد ناک آواز آرہی تھی۔ وہ رورہی تھی اور کراہ رہی تھی اور بار بار یہ کہے جارہی تھی کہ ارے میری بہو تجھے بھگوان سمجھے ، تو مر جائے، مجھے ڈال گئی…. اس بڑھیا کی بہو اور بیٹا اس کو گھر سے نکال کر ایک دکان کےپھٹے پر چھوڑ گئے تھے۔ہم سب نے کھڑے ہو کر تقریر شروع کی کہ دیکھو کتنا ظالم سماج ہے، کتنے ظالم لوگ ہیں۔ اس غریب بڑھیا بچاری کو یہاں سردی میں ڈال گئے۔ اس کاآخری وقت ہے۔اروند نے بڑی تقریر کی کہ جب تک انگریز ہمارے اوپر حکمران رہے گا، اور ملک کو سوراج نہیں ملے گا ایسے غریبوں کی ایسی ہی حالت رہے گی۔ حکومت کو کچھ کرنا چاہیے۔ انا تھ آشرم (کفالت خانے، مقیم خانے) جو ہیں وہ کچھ نہیں کرتے۔ ہم یہاں کیا کریں۔کر پال سنگھ وہاں سے غائب ہو گیا۔ ہم نے کہا پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے۔ ابھی ہم اس بڑھیا کے پاس کھڑے ہوئے تقریریں کر رہے تھے کہ وہ با مشکل کے اوپر آیا۔ سردیوں میں بالکل پسینہ پسینہ ، فق ہوا، سانس اوپر نیچے لیتا آگیا۔ اس کے ہوسٹل کے کمرے میں چار پائی کے آگے ایک پر انا کمبل ہوتا تھا جسے وہ اپنی چار پائی سے کھینچ کر لے آیا اور اس نے بڑھیا کے اوپر ڈال دیا۔ بڑھیا اس کو دعائیں دیتی رہی۔ کر پال کو نہیں آتا تھا وہ طریقہ کہ کس طرح تقریر کی جاتی ہے۔ فن تقریر سےوہ نا واقف تھا۔بابا نور والے کہا کرتے تھے کہ انسان کا کام ہے

دوسروں کو آسانی دینا۔ آپ کا کوئی دوست تھانے پہنچے ،اور وہ تھانے سے آپ کو ٹیلی فون کرے کہ میں تھانے میں آگیا ہوں۔ تو کبھی یہ مت پوچھو کہ کیا ہوا، کس طرح ہوا، کیسے پہنچے۔ یہ پوچھو کون سے تھانے میں ہو۔ بس یہ آسانی عطا کرنے کا طریقہ ہے۔ یہ فن ہم نے سیکھا نہیں تھا۔ ہمارے کورس میں ، کتاب میں اس قسم کی چیزیں ہی نہیں تھیں۔میرے ایک بھائی ہیں۔ میرے تایا زاد میری عمر کے۔ وہ مجھ سے تھوڑے دن خفا ہوئے۔ انہوں نے کہا، یہ تم نے کیا پروگرام شروع کیا ہے۔ دنیا ترقی کر رہی ہے، زمانہ آگے بڑھ رہا ہے اور تم پیچھے مڑ کے بابوں کی طرف لیے جارہے ہو۔ جب آدمی ترقی کا مطلب لیتا ہے تو وہ بہانہ ، اور سہارا دوسروں کا لیتا ہے۔ اپنی زندگی بنانے کا صرف اکیلا خواہش مند ہوتا ہے۔ کہتے ہیں اس میں کسی اخلاق یا مور ملٹی کی ضرورت نہیں، چھوڑو انسان کو ۔ اب تم کوئی ایسا کام کرو جو ٹیکنالوجی کے ساتھ تعلق رکھتا ہو، علم عطا کرو، اور ان کو بتاؤ۔جب وہ مجھ سے بات کر رہے تھے، مجھے اپنے باباجیکا زمانہ یاد آرہا تھا۔بستی میں ایک میلہ ہوتا ہے۔ سالانہ مویشیوں کا میلہ سارے پاکستان میں بہت مشہور ہے۔ میلہ بہت اعلی درجے کا ہوتا ہے۔ وہاں کے کچھ لوگوں نے بڑی محبت کے ساتھ مجھے محط لکھا کہ ہمارا بھی آپ کے اوپر کوئی حق ہے۔ اشفاق صاحب آپ کبھی یہاں پر تشریف لائیں۔ میں نے سنا تھا کہ سبی میں بہت گرمی ہوتی ہے، میں کچھ ٹال جاتا تھا۔ خط تقریباً چار سال تک آتارہا۔ پھر مجھے بہت شرمندگی ہوئی، اور ضمیر نے ملامت کی۔ بھئی ایسی کون کی مصیبت ہے کہ آپ نہیں جا سکتے۔ میں نے کہا میں تیار ہوں جانے کے لیے۔میں نے ارادہ باندھا اور قادری بابا سے جا کر پوچھا۔ اجازت لینے کے لیے۔ ہم زور لگا کے یہ رسم سیکھ رہےتھے ، ورنہ کون اجازت لیتا ہے۔میں نے کہا، سر کار مجھے بتی جانا ہے۔کہنے لگے بہت خوشی کی بات ہے۔ بڑی اچھی باتہے ضرور جاؤ۔میں نے کہا جی وہاں کے لوگوں نے بلایا ہے۔ کہنے لگے، نہیں نہیں اس میں پوچھنے کی بات ہی کوئی نہیں، تم جانا اور ضرور جانا۔ میں نے کہا آپ کی طرف سے اجازت ہے۔ کہنے لگے ضرور ہاں، بالکل اجازت ہے بلکہ میں بہت خوش ہوں۔ میں ان سےاجازت لے کر چلا۔ابھی میں ڈیرے کے دروازے تک پہنچا، باہر جھاڑ جھنکار کی ، ایک باڑ لگی ہوئی تھی، وہاں سے مجھے آواز دے کر پھر ہلایا۔جب میں لوٹ کے آیا تو مجھ سے کہنے لگے، بنی جا رہے ہو، بڑی خوشی کی بات ہے۔ وہاں جا کر لوگوں کو اپناعلم عطا کرنے نہ بیٹھ جانا، ان کو محبت دینا۔میں نے کہا، سر ….! محبت تو ہمارے پاس گھر میں دینے کے لیے نہیں، وہ کہاں سے دوں۔ میرے پاس علم ہی علم ہے۔ بابا نے کہا انہوں نے محبت سے بلایا ہے، محبت سے جانا۔ اگر ہے تو لے کر جانا۔لیکن ہم تو ظاہر علم سکھاتے ہیں اور یہ محبت ! میں نے کہا جی یہ بڑا مشکل کام ہے۔ میں کیسے یہ کر سکوں گا۔ میں کیا کوششیں بھی کہیں، لیکن بالکل ناکام لوٹا، کیونکہ علم عطا کرنا اور ان کی نصیحتیں کرنا بہت آسان اور محبت دینا بڑا مشکل کام سےمیں یہ عرض کر رہا تھا کہ بابے وہ ہوتے ہیں جن میں تخصیص نہیں ہوتی۔ اگر آپ زندگی میں کبھی کسی شخص کو آسانی عطا کر رہے ہیں تو آپ بابے ہیں۔ اگر آسانی عطا نہیں کر رہے تو پھر آپ اپنی ذات کے ہیں۔ جیسا کہ میں ابھی عرض کر رہا تھا کہ اس میں جنس کی بھی تخصیص نہیں ہوتی، عمر کی قید نہیں ہوتی۔میری چھوٹی پوتی نے اس دفعہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک عجیب و غریب بات کی جو میں تو کبھی نہیں کر سکا۔ اس نے سکول کی تھرماس لے کر اس میں بہت اچھی سکنجبین بنائی اور برف ڈالی اس کو جہاں ہمارا لیٹر بکس ہے، درخت کے ساتھ، اس درخت کی کھوہ میں رکھ دیا اور ایک خط لکھ کے پن کر دیا اس کے ساتھ۔اس نے لکھا….الکل پوسٹ میں۔ آپ گرمی میں خط دینے آتے ہیں، تو آپ با مسکل چلاتے ہو، بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ میں نے آپ کے لیے یہ محبین بنائی ہے۔ یہ آپ پی لیں۔ میں آپ کی بڑی شکر گزار ہوں گی۔دو پہر کو ہم روز زبردستی سلا دیتے تھے بچوں کو۔ شام کو جب وہ جاگی تو وہ تھرماس لے آئی، اس کے اوپر خط کے اوپر ہر کارے نے بال پوائنٹ سے لکھا تھا،

پیاری بیٹی تیرا بہت شکریہ۔ میں نے سکنجبین کے دو گلاس پیئے ، اور اب میری رفتار اتنی تیز ہو گئی ہے کہ میں ایک پیڈل مارتا ہوں تو دو کو لھیاں آسانی سے گزر جاتا ہوں، تو جیتی رہ۔ اللہ تجھے خوش رکھے۔ کل جو بنائے گی اس میں چینی کے دو تیکی زیادہ ڈال دیتا۔

یہ اس کی محبت ہے نا۔ اس چھوٹی سی بچی نے بابا کی طرح آسانی دی تھی۔ اس نے پوسٹ مین سے ایک۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر 2024

Loading