Daily Roshni News

بانگ درا حصہ دوم۔۔۔ اِنسان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بانگ درا حصہ دوم

نمبر شمار 79

*اِنسان*

قُدرت کا عجیب یہ ستم ہے!

انسان کو راز جو بنایا

راز اس کی نگاہ سے چھُپایا

بے تاب ہے ذوق آگہی کا

کھُلتا نہیں بھید زندگی کا

حیرت آغاز و انتہا ہے

آئینے کے گھر میں اور کیا ہے

ہے گرمِ خرام موجِ دریا

دریا سوئے بحر جادہ پیما

بادل کو ہوا اُڑا رہی ہے

شانوں پہ اُٹھائے لا رہی ہے

تارے مستِ شرابِ تقدیر

زندانِ فلک میں پا بہ زنجیر

خورشید، وہ عابدِ سحَر خیز

لانے والا پیامِ ’برخیز‘

مغرب کی پہاڑیوں میں چھُپ کر

پیتا ہے مئے شفَق کا ساغر

لذّت گیرِ وجود ہر شے

سر مستِ مئے نمود ہر شے

*کوئی نہیں غم گُسارِ انساں*

*کیا تلخ ہے روزگارِ انساں*

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تفہیم و تشریح

بند اول

*قدرت کا عجیب یہ ستم ہے*

اللہ تعالیٰ نے انسان پر یہ عجیب و غریب ستم کیا ہے کہ ایک طرف تو اُسے ایسی طبیعیت عطا کر دی جو ہر لحظہ کائنات کے بھیدوں کو جاننے کی کوشش میں لگی ہے ۔ اور دوسری طرف انسان کی نگاہوں سے کائنات کے تمام راز چھپا دیتے ہیں ۔ انسان کے دل و دماغ میں اشیاء کو جاننے کا شوق بے چین و مضطرب ہے لیکن اس اضطراب دبے چینی کے باوجود انسان پر زندگی کارا از منکشف نہیں ہوتا ۔ انسان کو اپنی سعی اور کوشش کی ابتداء اور انجام پر صرف حیرت سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور کیوں نہ ہو شیشے کے گھر میں اس کے علاوہ اور مل بھی کیا سکتا ہے ۔ اقبال نے اس کائنات کو شیشے کا گھر قرار دیا کہ آئینہ بھی حیران رہتا اور حیران کر دیتا ہے اور اس کا تنات کے راز بھی انسان کو حیرت زدہ کئے رکھتے ہیں ۔

بند دوئم

*ہے گرم خرام موج دریا*

دریا کی لہریں تیزی سے سفر کر رہی ہیں جبکہ دریا ہمہ وقت سمندر کی طرف جانے والے راستے کو ناپ رہا ہے یعنی سمندر کی طرف بہا چلا جا رہا ہے ۔ ہوا کے دوش پر بادل اُڑا جا رہا ہے ۔ تارے اپنے اس اندازے کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں جو ازل سے اُن کیلئے مقرر کر دیا گیا ہے ۔ وہ آسمان کے قید خانے میں مقید ہیں اور ان کے پاؤں میں زنجیر پڑی ہوئی ہے۔ صبح کو اٹھ کر مصروف عبادت ہو نیوالا سورج اور ساری کائنات کے لئے اٹھنے اور اپنے کام دھندے میں مصروف ہونے کا حکم لانے والا سورج شام کے وقت مغرب کی پہاڑیوں میں چھپ جاتا ہے اور وہاں شفق کی شراب پیتا ہے ۔

اس طرح دیکھا جاتے تو پتا چلے گا کہ دنیا کی ہر چیز اپنے وجود اور زندگی کی لذت دسرت سے سرشار ہو رہی ہے اور اپنے وجود کو ظاہر کرنا چاہتی ہے ۔ لیکن اس پوری کائنات میں انسان کے دُکھ بانٹنے والی کوئی ہستی نہیں ہے ۔ چاروں طرف بیشمار مظاہر فطرت ہونے کے باوجود انسان کائنات کے رازوں کو پانے کے معاملے میں ضرور بی کا تنہا ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے شب و روز کس قدر تکلیف دہ ہیں ۔

(شارح پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد)

Loading