“بس پانچ منٹ لگے…!” میری زندگی کا ایک سچا واقعہ آپ لوگوں کی نذر۔۔۔
تحریر۔۔۔ محمد عظیم حیات
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔محمد عظیم حیات)میرے پیارے دادا ابو (اللہ ان کو جنت الفردوس عطا فرمائے) کے کل چھ بھائی تھے، یعنی انہیں ملا کر سات بھائی تھے۔ سب سے بڑے بھائی کو تو میں نے نہیں دیکھا، لیکن دادا ابو سمیت باقی پانچ بھائیوں کے ساتھ زندگی کے کئی حسین لمحات گزارے۔ ہم سب گھر والے تمام بھائیوں کو “دادا” کہہ کر ہی پکارتے تھے۔
ان میں سے پانچ اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن چھٹے نمبر والے مرزا انور صاحب، جنہیں ہم پیار سے دادا انور کہتے ہیں، ابھی حیات ہیں۔ اگرچہ کچھ بیمار رہنے لگے ہیں، لیکن اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کو مکمل صحت و تندرستی عطا فرمائے۔
یہ واقعہ بھی انہی دادا انور سے متعلق ہے۔ مگر واقعہ بیان کرنے سے پہلے اُن کی شخصیت کا مختصر سا خاکہ ضروری ہے تاکہ بات دل میں اُتر جائے۔ فربہ جسم، موٹے موٹے عدسوں والی عینک، سر کے اگلے حصے سے بال غائب، ہمیشہ کاٹن کا صاف ستھرا شلوار قمیض زیب تن، اور ایک ایسا رعب کہ چھوٹے کیا، بڑے بھی ذرا سنبھل کے بات کرتے۔ ہر چیز پر تبصرہ، ہر بات میں دخل، اور ہر معاملے پر اپنی رائے دینا ان کا خاصہ تھا۔ اکثر اپنے علم کی بنیاد پر قائل کرتے اور بعض اوقات صرف اپنے رعب کی بدولت خاموش کروا دیتے۔
محلے کے سارے ہی بچے ان سے بہت عزت سے پیش آتے تھے، اور ان کی موجودگی میں انہیں احترام سے “انکل” کہہ کر پکارتے۔ لیکن ان کی غیر موجودگی میں اکثر بچے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ہنستے ہوئے کہتے: “انکل کیوں”۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب کوئی بچہ ان کے ہتھے چڑھ جاتا، تو وہ سوالات کی بارش کر دیتے:
“کیوں بھئی، یہ کس نے کیا؟” “کیوں بھئی، یہ کیسے کیا؟” “ایسے کیوں کر رہے ہو؟ ویسے کیوں کھڑے ہو؟”
بس یہی “کیوں، کیوں، کیوں” اُن کی پہچان بن گیا تھا — اور محلے کے بچوں نے انہیں پیار سے انکل کیوں کا لقب دے دیا تھا۔
ہمارا آبائی گھر بہت بڑا ہے، دو پورشنز پر مشتمل۔ ایک طرف ہم اپنے والد اور دادا ابو کے ساتھ رہتے، اور دوسرے پورشن میں دادا ابو کے تین بھائی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ۔ بیچ میں ایک بڑا سا صحن — جو عام دنوں میں تو موٹر سائیکل یا سکوٹر کھڑے کرنے کے کام آتا، لیکن قربانی کے دنوں میں وہی صحن وقتی طور پر جانوروں کے لیے مخصوص ہو جاتا۔ کبھی کبھی چھوٹے موٹے فنکشن بھی اسی صحن میں ہوتے۔
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، یعنی 1993۔ ان دنوں لاہور کی مختلف سڑکوں، جیسے فیروز پور روڈ، مزنگ، اچھرہ، وحدت روڈ وغیرہ پر، عید سے دو تین ہفتے پہلے ہی جانوروں کی بہار آ جاتی تھی۔ ہر طرف بکرے ہی بکرے دکھائی دیتے تھے۔ محلے کے لڑکے ٹولیاں بنا کر جانور دیکھنے نکلتے، اور اگر کسی نے جانور لینا ہوتا تو دس ’مشیر‘ ساتھ جاتے۔
دادا انور کو قربانی کا شوق ضرور تھا، لیکن گائے یا بکرے سے زیادہ اُنہیں دُنبہ پسند تھا — خاص طور پر دنبے کی چَکّی۔ بڑے ہی شوق سے کھایا کرتے تھے۔
محلے اور خاندان کے کئی افراد کے ساتھ وہ جانور خریدنے جایا کرتے، اور اپنے دلائل، انداز اور تیور سے اکثر بیوپاری کو اتنا بےبس کر دیتے کہ وہ خود ہی رسی ہاتھ میں تھما دیتا۔ اور پھر دادا انور فاتحانہ انداز میں کہتے:
“کیوں، کیسا کروا کے دیا سودا؟ آپ لوگ کر سکتے تھے بھلا؟”
جانور خریدنے کے فن میں وہ واقعی استاد تھے۔ دانت دیکھنا، سری کا زاویہ چیک کرنا، پائے پر ہاتھ رکھ کر شوربے کی طاقت اور مقدار کا اندازہ لگانا، کمر پر تھپکی دے کر نسل کی کھوج لگانا اور آخر میں… وہی نازک مرحلہ… یہ دیکھنا کہ جانور ’’پوری فٹنس‘‘ کے ساتھ ہے یا نہیں۔
اب یہ عمل وہ ایک مخصوص اور آزمودہ انداز میں انجام دیتے تھے۔ منڈی میں جانور خریدنے سے پہلے، جانچ پڑتال کے آخری مرحلے پر وہ بکرے کے پچھلے حصے کی طرف ایک خاص پھرتی اور نپی تلی چال کے ساتھ بڑھتے، اور بڑی مہارت سے دُم کے نیچے کسی مناسب مقام پر ہتھیلی یا انگلی سے ایسی ہلکی سی “ریسرچ” کرتے کہ شریف سے شریف بکرا بھی اندر سے چونک اٹھتا۔
اگر جانور تھوڑا شرماتا، یا غیرت کے مارے ایک دم پیچھے ہٹتا اور فرطِ ندامت میں خود کو آس پاس کھڑے لوگوں کے بیچ چھپانے کی کوشش کرتا، تو دادا انور ایک آنکھ دبا کر پنجابی میں مسکرا کر کہتے:
“اوئے، ایہہ تے بڑا ہی ودھیا جانور اے! ایندا سودا کرنے آں!” (اوئے، یہ تو بڑا زبردست جانور ہے! اس کا سودا کرتے ہیں!)
کبھی کبھار تو جانور ایسے چونک کر منہ پھیرتا کہ جیسے کہہ رہا ہو، “یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟”
سچ کہوں تو میں نے بھی جانوروں کی یہ جانچ پرکھ دادا انور سے ہی سیکھی۔
اب آتے ہیں اصل واقعے کی طرف۔
جس سال کی بات کر رہا ہوں، اُس سال سب اپنے اپنے جانور لے چکے تھے، سوائے دادا انور کے۔ اگلا دن عید تھی، اور وہ اب تک خالی ہاتھ تھے۔ جبکہ عام طور پر وہ عید سے پانچ سات دن پہلے ہی جانور لے لیا کرتے تھے۔
ہمارے سب جانور بڑے صحن میں قربانی کے لیے بندھے ہوئے تھے۔ چاند رات کو، تقریباً تین بجے، ہم سب سو رہے تھے جب دادا انور کی آواز سنائی دی، وہ شاید کسی سے بڑی فخر سے کہہ رہے تھے:
“پنج منٹ دے اندر سودا کیتا اے میں! پنج ہزار دا جانور تِن ہزار وچ لے آیاں واں ! (پانچ منٹ کے اندر سودا کیا ہے میں نے! پانچ ہزار کا جانور تین ہزار میں لے آیا ہوں!)”
ان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ رات کی گہری تاریکی میں انہوں نے کوئی خاص جانور خرید لیا ہے۔ خیر، ہمارے لیے اتنا جان لینا ہی کافی تھا کہ ایک اور جانور آ گیا ہے، صبح دیکھ لیں گے، سو ہم سوتے رہے۔
فجر کے وقت جب آسمان پر ہلکی ہلکی روشنی نمودار ہو رہی تھی، صحن سے ایک عجیب سا شور سنائی دینے لگا۔ خاندان کے چند افراد کی پریشان آوازیں اور قصائی کی تیز تیز بولی گونج رہی تھی:
“یہ تو زیادتی ہو گئی!” “یہ کیسے ہو گیا؟” “اب کیا کریں گے؟”
تجسس کے مارے میں بھی صحن کی طرف لپکا لیکن جب میں پہنچا تو اصل ماجرا ہو چکا تھا۔ اب جو میں سنانے جا رہا ہوں، وہ وہی ہے جو میرے پہنچنے سے پہلے وہاں پیش آیا تھا۔
ہوا دراصل یوں کہ… ہمارا قصائی، جو ہر سال فجر سے پہلے آ جایا کرتا تھا تاکہ تمام جانوروں کو دیکھ کر فیصلہ کر سکے کہ کون سا پہلے ذبح ہو گا اور کون سا بعد میں، اس روز بھی حسبِ معمول پوری جانچ پڑتال مکمل کر چکا تھا۔
جب وہ دادا انور کے دنبے کے پاس پہنچا، تو ایک لمحہ اُس نے جانور کو غور سے دیکھا۔ پھر قریب ہو کر، مخصوص حصے کا مشاہدہ کیا، اور ایک لمحے کی خاموشی کے بعد، پوری سنجیدگی سے دادا انور کو مخاطب کرتے ہوئے پنجابی میں کہا:
“مرزا صاحب… اس واری تسی مادہ دنبے دی قربانی دے رہے او؟” (مرزا صاحب… کیا اس بار آپ مادہ دنبے کی قربانی دے رہے ہیں؟)
دادا انور، جو سمجھ رہے تھے کہ استاد مذاق کر رہا ہے، مسکرا کر بولے:
“استاد جی! مذاق نہ کرو یار… میں کوئی نواں آں منڈی وچ؟” (استاد جی! مذاق نہ کرو… کیا میں منڈی میں نیا آیا ہوں؟)
قصائی نے تھوڑا اور قریب ہو کر آواز دھیمی کی:
“مرزا صاحب، میں مذاق نئیں کر ریا۔ جدوں میں ویکھیا… تاں شک ہو گیا سی ۔ کول ہو کے ویکھیا تے پتا لگیا کہ اے دنبہ نئیں، دنبی اے۔” (مرزا صاحب، میں مذاق نہیں کر رہا۔ جب میں نے دیکھا تو شک ہوا، قریب جا کے دیکھا تو پتہ لگا یہ نر دنبہ نہیں، مادہ ہے۔)
اصل ماجرا کچھ یوں تھا: جب قصائی دادا انور کے دنبے کے پاس پہنچا، تو اُس نے دیکھا کہ جانور کے ’’خصوصی لوازمات‘‘ میں کچھ گڑبڑ ہے۔ اور مزید غور پر یہ راز کھلا کہ کسی نے ایک غبارہ، جس میں تھوڑی سی ریت اور کوئی محلول سا بھرا گیا تھا، ہوا بھر کر مادہ دنبہ کی کمر کے ساتھ باندھ دیا تھا — تاکہ دور سے دیکھنے والا اُسے نر دنبہ سمجھے۔
اور سب سے کمال بات یہ تھی کہ غبارہ باندھنے والا بھی کوئی عام بندہ نہیں، فنکاری کا استاد معلوم ہوتا تھا۔ غبارے کی رسی کو ایسی صفائی سے دنبے کی اون میں چھپایا گیا تھا کہ کوئی کوشش کے باوجود بھی دور دور تک کسی کو شک نہ ہوا — بلکہ دادا انور جیسے ماہر بھی دھوکہ کھا گئے!
بدقسمتی سے غبارے میں شاید کسی نوکیلی چیز کی چبھن لگ گئی تھی اور وہ بیٹھ گیا تھا۔ اب ریت نیچے گر رہی تھی، اور اصلیت سب کے سامنے تھی۔
صحن میں سب لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکرا رہے تھے۔ دادا انور کا چہرہ غصے سے دہک رہا تھا۔ انہوں نے خوب صلواتیں سنائیں — بیچنے والے کو نہیں، خود کو۔ کیونکہ جو دوسروں کے جانوروں کو ہاتھ لگا لگا کر پرکھتا تھا، وہ اپنے جانور پر دھوکہ کھا گیا۔
اور جن تین ہزار روپوں پر وہ فخر کر رہے تھے، اُس کی حقیقت جان کر یہ سودا ہزار میں بھی مہنگا لگ رہا تھا۔
عید کی نماز کے بعد جب کچھ “دیسی معائنے” کیے گئے تو قصائی نے اطمینان دلایا کہ:
“مرزا صاحب، فکر نہ کرو، جانور حاملہ نہیں — قربانی ہو سکتی ہے۔”
جان میں جان آئی۔ جانور ذبح ہوا، کھال اتری، دادا انور خلا میں گھورتے ہوئے ایک کے بعد ایک سگریٹ سلگا رہے تھے۔
اور تب… قصائی، جو کہ یہ اچھے طریقے جانتا تھا کے دادا انور کو چکی بہت پسند ہے، کی برجستہ آواز گونجی:
“مرزا صاحب، شکر کرو غبارے تک معاملہ رُک گیا۔ اگر دنبے دی چَکّی وی نقلی ہُندی تے…؟” (مرزا صاحب، شکر کریں کہ معاملہ صرف غبارے تک ہی رہا، اگر دنبے کی چکی بھی نقلی ہوتی تو…؟)
اس بار جو زوردار “قہقہے ” کی آواز آئی وہ دادا انور کی تھی اور اس کے بعد صحن وہاں پر موجود لوگوں کے قہقہوں سے گونج اُٹھا۔
وہ دن، وہ منظر اور وہ خجالت…
آج بھی جب بڑی عید آتی ہے، یہ واقعہ خود بخود یاد آ جاتا ہے اور دادا انور کی اس بات کہ “پانچ منٹ میں سودا کیا”، ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا ہے، اور کئی بار بےاختیار منہ سے نکل جاتا ہے:
“بس پانچ منٹ لگے…!”
اگر آپ کے ساتھ بھی کوئی ایسا واقعہ جُڑا ہو — تو ضرور بتائیں۔ اور ہاں، کمنٹس میں ضرور بتائیے گا کہ یہ کہانی کیسی لگی؟
دعا کا طالب
محمد عظیم حیات
لندن