ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )بشر سے “ب” نکال دیں تو “شر” رہ جاتا ھے, اور “شر” اشرف المخلوقات کے مقام سے گِرنا ھے. “شر” کو بسم اللہ والے نے بسم اللہ کی “ب” عطا کر کے اِس کو “شر” سے بشر بنایا, بشر کو یہاں سے آگے کی طرف سفر کرنا ھے, نہ کہ پیچھے کی طرف.
یہاں سے “اشرف” کا “الف” ہٹا لیا جائے گا اور “شرف” کی طرف اِس کا سفر شروع ھوگا. اب اِسے مزید “شرف” حاصل کرنے ھونگے اور “شرف” کے لیے یہ “میم” کا محتاج ھے. “میم” کی مدد سے ہی یہ “شرف”سے “مُشرف” ھو گا.
“احد” میں “میم” مِلا تو “احمد” ھوا. اب اِس بشر کا سفر “احمد” کی “دال” سے شروع ھوگا جو کہ دنیا ھے. “د” سے یہ “میم” تک پہنچے گا جو کہ “محمد” ھے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “محمد” اِسے “ح” سے متعارف کرائیں گے جو کے “حق” ھے. اور “حق” کے بعد اِسے “الف” پھر سے واضح دِکھائی دے گا جو کہ “اللہ” ھے. ا-ح-م-د 👉 احمد
“شر” کو “ب” کی طاقت دے کے “بشر” بنایا, اور “الف” سے “شرف” دے کے “اشرف” کا مقام بخشا.
“ا ل م” آپ “میم” کے اِس طرف کھڑے ہیں, نہ کہ “الف” کے اُس طرف. آپ “میم” (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب تک فیضیاب نہیں ھونگے “لام” (لا الہ الا اللہ) تک نہیں پہنچ سکتے, “لام” کی روشنی کے بعد ہی آپ کو “الف” ( اللہ) کا مقام دِکھے گا.
یہی آپ کا سفرِ امتحان ھے جو عشق کے بنا ممکن نہیں۔۔ اور اگر اس سفر میں کوئی عشق والا راہبر مل جائے کہ جسے “م” سے آشنائی ہو تو پھر “ا” تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔۔۔۔