Daily Roshni News

بلیو وہیل!۔۔۔قسط نمبر2

بلیو وہیل!

کیا واقعی کوئی گیم کسی انسان کی جان لے سکتا ہے؟

(قسط نمبر2)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔بلیو وہیل)لائیو کیمرہ چلا کر بلیڈ سے اپنی ران پر لیس لکھنا، کسی اونچی عمارت پر سے ٹانگیں لڑکا کر بیٹھنا۔ اس کے بعد روز صبح چار بجے اُٹھ کر کچھ ڈراؤنی ویڈیوز اور آواز میں سننی پڑتی ہیں پڑتی ہیں جو وہ ایڈ من اسی وقت بھیجتا ہے۔ ایک چھینج میں پورا ایک دن مسلسل بند کمرے میں رہ کر ڈراونی فلمیں دیکھنی پڑتی ہیں۔ پھر ہاتھ پر چاقو یا بلیڈ سے وہیل کی تصویر بنانی پڑتی ہے۔ اس کے بعد کے چیلنج ایک ہی معمول کے مطابق چلتے ہیں اور آخر کار 50 ویں دن ایک ٹاسک ملتا ہے اور وہ ٹاسک ہوتا ہے کہ دل میں موت کا خوف کرنا اور اس کے لیے

کسی اونچی عمارت سے چھلانگ لگاتا ہوتا ہے۔

 گیم کے لیے خودکشی؟؟

اب سوال ہے کہ گیم کے لیے کوئی کیسے خود کشی کر سکتا ہے؟

در اصل یہ گیم برین واشنگ کا استعمال کرتا ہے۔ آپ ایک ٹین ایجر کے دماغ سے سوچیں جس کی عمر تیرہ سے اٹھارہ سال ہے۔ بلیو وہیل کے شروع میں بت اس سے ایسے کام کروائے گئے ہیں جو اگر اس کے والدین کو علم علم ہوں تو اس کے لیے. ، مشکل کھڑی ہو سکتی کے ہے جیسا کہ رات کو اکیلے ڈراونی فلم دیکھنا، بلیڈ کا استعمال کراونچی عمارت پر بیٹھنا وغیرہ وغیرہ۔ خود کشی کے لیے پیش خان میلنگ ہو سکتی کرنے کی سب سے بڑی وجہ بلیک ہے، ان کے پاس نو عمر کھلاڑی کے والدین کی ساری یاا انفار میشن تو ہوتی ہے جو یہ کھلاڑی دے چکے ہوتے ہیں۔ کر کھلاڑی کو بلیک میل کر کے ڈرا دھمکا کر اس سے خود کشی تک کاارتکاب کروانے کی کوشش کی جاتی ہے.

دوسری بڑی وجہ نفسیاتی طور پر کھلاڑی کا تباہ کے ہو جاتا ہے۔ بلیو وہیل گیم کے ان پچاس چلینجز سے کےگزر کر کھلاڑی نفسیاتی طور پر اتنا ڈسٹرب اور تباہ کر دیا گیا ہوتا ہے کہ اس کا ذہن کسی مزاحمت کے قابل نہیں رہتا۔ تیسری بڑی وجہ ڈر ہے جیسا کہ بھارت میں ایک لڑکی نے خود کشی کی کوشش کی اسے بچایا گیا تو اس نے ایک ہی رٹ لگائے رکھی کہ مجھے مر جانے دوا گر میں نہ مری تو وہ میری والدہ کو مار دیں گے۔

ٹارگیٹ کون ؟؟

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اس گیم کا شکار ہونے والوں میں اکثریت نو عمر لڑکیوں کی ہے جو اپنے والدین کی جانب سے عدم توجہ اور پیار کی کمی محسوس کرتی ہیں۔ فلپ نے ان کی اس کمزوری کو ہتھیار بنا کر انہیں نشانہ بنایا۔ اس گیم میں زیادہ تر 13 سے 18 سال کی عمر کے نو عمر نوجوان کے ناپختہ ذہنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گیم کھیلنے والے کو ابتدائی مرحلے میں رات کو نیند سے جاگ کر خوفناک فلمیں دیکھنا پھر قبرستان جانا اور اپنے جسم کو کاٹ کر بلیو وہیل کا عکس بنانا جسے ٹاسک دیے جاتے ہیں کہ اُس کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اس طرح کے گیم میں پھننے والے بچوں کی پرسنیلٹی کہیں نہ کہیں کمزور ہوتی ہے۔ وہ دوسروں سے نہ نہیں کہہ پاتے اور خاندان سے بھی کھل کر اپنی باتیں شیئر نہیں کرتے۔ اس سے جب سامنے سے کوئی اُسے ڈرانے دھمکانے، یا اسے اپنی باتوں سے ورغلانے یا اکسانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ جلد ہی اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اس کے نشانے پر وہ کم عمر نوجوان بھی ہیں جن میں خود داری اور عزت نفس کی کمی ہے، ان سے ان کے بارے میں معلومات لی جاتی ہیں اور ان معلومات کے ذریعے صارف کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ ان کے .

ذاتی معاملات کے ساتھ کھیلا جاتا ہے جن سے نا پختہ ذہن رکھنے والا صارف ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے، پھر صارف کو مختلف قسم کی ذہنی طور پر تنگ کر دینے والی فلمیں دیکھنے کو کہا جاتا ہے، پھر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس صارف کو کسی قسم کے غلط کام کا چیلنج دینا ہے، یہ چیلنج خود کو معمولی نقصان پہنچانے سے لیکر جان جوکھوں والے کام تک ہو سکتا ہے۔ گیم کے ایڈمن اس سب کی وڈیوز حاصل کرتے ہیں جن کو بعد میں صارفین

کے خلاف ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا یہ کہنا ایک حد تک تو درست ہے روس میں خود کشی کرنے والے نوجوانوں کا تعلق ایسے گروپ سے تھا جو پہلے سے ہی ذہنی طور پر ڈپریس اور زندگی سے مایوس تھے۔ لیکن دنیا کے دیگر ممالک میں اس گیم سے ہونے والے حادثات کا نوجوانوں میں تجس اور ایڈونچر پسندی بھی تھا۔ سبب

تجسس اور خود کشی؟؟

آپ کے ذہن میں یہ سوال آتا ہو گا کہ کوئی اتنا بیوقوف کیسے ہو سکتا ہے کہ اس گیم کے لیول کو پار کرنے کے لیے وہ خود کشی کرلے۔ اگر آپ خود کو اس کی جگہ پر رکھیں تو آپ تو کبھی یہ بیوقوفی بھر اکام نہیں کریں گے ۔ آپ سوچیں گے کہ یہ گیم مجھے خود کشی کرنے کا کہہ رہا ہے ، میں پاگل ہوں کیا جو یہ کہے گا وہ میں کروں گا۔ میرے پاس عقل نام کی چیز نہیں کیا ؟ آپ بالکل صحیح ہیں ….

لیکن مجھے اس گیم سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں …. اگر میں اس گیم کو کھیل بھی لوں تب بھی خود کشی تو نہیں کروں گا، یہ سوچ غلط ہے ….؟ اصل بات یہ ہے کہ اس گیم سے متعلق یہی

سوچ اور تجسس ہی کئی نوجوانوں کو اس تک رسائی کا ذریعہ بنا۔ اس کی مثال ہم اس طرح لیتے ہیں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ تمباکو صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ پھر بھی لوگ سگریٹ پیتے ہیں اور بڑی شان سے دھواں اڑاتے ہیں۔ جب اسکول اور کالج کے بچے شروع میں سگریٹ پینا یا نشہ لینا شروع کرتے ہیں تو تو کر ان سب کے دماغ میں یہی بات ضرور موجود ہوتی ہے کہ یہ چیز خطر ناک ہے لیکن وہ صرف یہ کہہ کر کہ ہم نے کون سا اسے ساری زندگی پینا ہے، صرف ٹرائی ہی رہے ہیں۔ مگر یہی بات اُن کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی بن جاتی ہے۔ اچھے گھروں کے مہذب بچے جب سگریٹ اور دیگر نشہ آور اشیاء کی لت میں پڑ جاتے ہیں تو اس سے ناصرف اس بچے بلکہ اُس کے پورے گھرانے کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ یہ گیم بھی بالکل اسی طرح کام کرتا ہے۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی لوگ صرف اور صرف لت کے مزے کے لیےاس گیم کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔

اس گیم سے متاثر ہونے والئے زیادہ تر نوجوان وہی ہیں جو تجسس اور ایڈونچر پسند تھے، انسان خصوصا نوجوانوں کی نفسیات ہے کہ وہ چیلنجز کو قبول کرتے ہیں اور چیلنج کو پار کر لینے میں انہیں مزہ آتا ہے۔ یہ گیم بھی اپنے عجیب و غریب چیلنجز کی مدد سے کھلاڑی کو تجسس اور ایڈونچر کی ایک لت میں مبتلا کر دیتا ہے اور ایک طرح سے کھلاڑی کو ہیپناٹائز کر لیتا ہے اور اس ہیپناٹزم اور لت کے زیر اثر نوجوان خود اپنے کنٹرول میں ہی نہیں رہتے۔

گیم کا نشه ؟؟

جی ہاں ! گیم بھی ایک طرح کا نشہ ہوتا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق گیمز کھیلنے والے کے دماغ کی اسکیٹنگ سے پتہ چلتا ہے کہ گیم کے دوران ان کے دماغ میں ڈوپامائن کی سطح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ڈوپامائن دماغ میں سکون اور مسرور کن رویوں کو ظاہر کرتی ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ڈوپامائن نامی ہارمون کی سطح میں اس وقت بھی اضافہ ہوتا ہے جب انسان کسی نشہ میں ہوتا ہے۔

جس طرح تمباکو نوشی میں جب سگریٹ کا دھواں اپنے اندر کھینچتے ہیں، تو اس دھویں میں شامل کیمیکل نکوٹین دماغ کے اعصاب تک پہنچ جاتی ہے۔ نکوٹین کے اثر سے دماغ ڈوپامائن Dopamine نام کا ہارمون خارج کرتا ہے جس سے سگریٹ نوش کو بہت اچھا احساس ہوتا ہے۔ جب بھی دماغ ڈوپامائن چھوڑتا ہے، تو ایک سرور کا احساس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کسی کام کا بہت سکون ملا ہے۔ یعنی دماغ کو یہ اشارہ جاتا ہے کہ اگر سگریٹ پی جائے گی تو محسوس ہو گا کہ بہت اچھا کام کیا ہے۔ اسی طرح اس گیم میں جب کھلاڑی لیولز کو پار کرتے ہیں تب ان کے دماغ میں ڈوپامین نام کا کیمیکل ریلیز ہوتا ہے۔ ڈوپامین اس کیمیکل کا نام ہے جو دماغ میں اس وقت بھی ریلیز ہوتا  ہے جب کسی مزیدار کام کو کرتے ہیں۔ جب کھلاڑی لیول 1 کھیلتے ہیں تو انہیں تھوڑا سا مزہ آتا ہے اور جب لیول 2 پار کرتے ہیں تو تھوڑا اور زیادہ مزہ آتا ہے، لیول تھری کے بعد اور زیادہ۔ اور جیسے جیسے لیول بڑھتی ہے تو کھلاڑی کو اتنا مزہ آنے لگتا ہے کہ یہ ایک نشہ آور چیز کی سی شکل اختیار کر جاتا ہے اور کھلاڑی اس مزے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیارہو جاتے ہیں۔

گیم اور خود کشی …..؟

پہلا واقعہ نہیں …..

آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ”بلیو وہیل “ گیم کی لت میں پڑ کر خود کشی کرنا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی گیم کی لت میں مبتلا کئی نوجوان خود کشی کر چکے ہیں۔ چند واقعات یہ ہیں: نومبر 2001ء میں 21 سالہ امریکی شان و ولی نے خود کشی کر لی۔ اس کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ ایک گیم ایور کو ٹسٹ کو نشہ کی حد تک کھیلتا تھا۔ اس میں گیم کے لیول کے ساتھ نشہ بڑھتا گیا لیکن جب اس نے گیم ختم کر لیا اور اس کو وہ نشہ حاصل نہ ہوا جس کی اسے عادت ہو گئی تھی تو ، اس نے خود کشی کرلی۔

27 دسمبر 2004ء کو تیرہ سالہ ژاؤلی نے چوبیس منزلہ عمارت سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی، موت سے قبل وہ چھتیس گھنٹے مسلسل وار کرافٹ 3 گیم کھیل رہا تھا…. اگست 2005ء کو 28 سالہ جنوبی کوریائی شخص لی سیونگ سیوپ پچاس گھنٹے تک مسلسل اسٹار کرافٹ نامی گیم کھلتے ہوئے موت کا شکار ہو گیا۔ ستمبر 2007ء میں گانگجو، چین کا ایک شخص انٹرنیٹ پر مسلسل تین دن سے آن لائن گیم کھیلتا رہا اور کھیل کے اس نشہ نے اس کی جان لے لی۔

ستمبر 2007ء میں ڈینیل پیٹرک نے اپنی والدہ کو گولی مار کر قتل کر دیا اور اس کے والد بھی گولی سے زخمی ہوئے۔ اس کے والد کی جانب سے ڈینیل پر ت گیمز کھیلنے پر پابندی لگائی گئی تھی کیونکہ وہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ اس لت میں مبتلا رہتا تھا۔ وہ ایک گیم بالو 3 کھیلنے کے لئے اپنے بیڈ روم کی گھڑ کی توڑ کر والد کے کمرے میں گھسا اور گیمز کے ساتھ ان کی بندوق بھی۔۔۔جاری ہے۔

Loading