”بل (Bill) کیا ہوتا ہے امی؟“
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آٹھ سال کے بچے نے اپنی ماں سے پوچھا۔ ماں نے اسے سمجھایا، جب ہم کسی سے کوئی سامان خریدتے ہیں یا کوئی کام کرواتے ہیں تو وہ اس سامان یا کام کے بدلے میں ہم سے پیسے لیتا ہے اور ہم کو اس سامان یا کام کی لسٹ بنا کر دیتا ہے، اسی کو ہم بل کہتے ہیں۔
بچے کو ماں کی بات اچھی طرح سمجھ میں آ گئی۔
رات کو سونے سے پہلے اس نے ماں کے تکیے کے نیچے ایک پیپر رکھا جس میں اسی دن کا حساب لکھا ہوا تھا:
دوکان سے سامان لا کر دیا
پانچ روپے
بابا کی بائیک صاف کر کے باہر نکالی
پانچ روپے
دادا جی کا سر دبایا
دس روپے
دادی امی کی چابیاں ڈھونڈ کر دی
دس روپے
ٹوٹل ہوا تیس روپے۔ یہ صرف آج کا بل ہے، اس کو آج ہی دے دیں تو نوازش ہو گی۔
صبح جب بچہ اٹھا تو اس کے تکیے کے نیچے تیس روپے رکھے ہوئے تھے۔ وہ انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ یہ تو بہت اچھا کام ہو گیا۔
تبھی اس کی نظر ساتھ رکھے کاغذ پر پڑی۔ اس کی امی نے لکھا تھا:
پیدائش سے لے کر آج تک پالا پوسا
معاوضہ صفر
بیمار ہونے پر ساری ساری
رات سینے سے لگا کر گھمایا، بہلایا
معاوضہ صفر
اسکول بھیجنا اور ہوم ورک کروانا
معاوضہ صفر
صبح سے رات تک کھلانا، پلانا، کپڑے تبدیل کروانا، استری کرنا
معاوضہ صفر
حد سے زیادہ تمھاری فرمائشیں پوری کرنا
معاوضہ صفر
یہ اب تک کا پورا بل ہے۔ اس کی جب بھی قیمت ادا کرنا چاہو، کر دینا۔
بچے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ سیدھا جا کر اپنی ماں کے پاؤں پر جھک گیا اور بہت مشکل سے روتے ہوئے کہنے لگا:
آپ کے بل میں تو قیمت لکھی ہی نہیں ہے امی۔ یہ تو انمول ہے۔ اس کی قیمت تو میں زندگی بھر ادا نہیں کر سکوں گا، مجھے معاف کر دیں پیاری امی۔ امی نے ہنستے ہوئے بیٹے کو گلے لگا لیا۔
نوٹ:
یہ تحریر اپنے بچوں کو ضرور پڑھائیں خواہ آپ کے بچے خود والدین بن چکے ہوں۔