“بندوبست”
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )”ہیلو مجھے ایک عدد رشتہ درکار ہے، کیا میں درست جگہ پر آئی ہوں؟” فیشن ایبل خاتون نے قدرے تیز لہجے میں کہا،
رافعیہ قدرت نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک درمیانے قد کی بھرے سے جسم کی حامل خاتون اس کے سامنے کھڑی سوالیہ نظروں سے رافعیہ کی طرف دیکھ رہی تھی،
“تشریف رکھیں، آپ کو کس کے لیے رشتہ درکار ہے؟” رافعیہ نے اس سے پوچھا،
“خود اپنے لئے ، کیا میں شادی کی قابل نہیں ہوں؟” خاتون نے منہ بناتے ہوئے کہا،
رافعیہ نے اس کے خدو خال کی طرف نگاہ ڈالی تو وہ پینتیس سال سے کچھ اوپر کی معقول صورت خاتون تھی، انداز سے بھی وہ کسی امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہوگی،
“نہیں ایسی بات نہیں ، ہم اپنے کلائنٹ کی ضرورت اور خواہش کے مطابق رشتہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ کو کس قسم کا رشتہ درکار ہے؟” رافعیہ نے محتاط انداز میں کہا،
رافعیہ نے محسوس کیا کہ خاتون کافی تیز طبیعت کی مالک ہے اور لہجے سے بھی فخریہ انداز جھلکتا ہے، اس کے لیے رشتہ کی تلاش ایک امتحان سے کم نہیں
“ایک ایسا ساتھی جو میری طبیعت اور مزاج کو سمجھ سکے اور میرے خیالوں پر پورا اتر سکے، میری پسند اور ناپسند کو سمجھتا ہو، دولت، آسائش کی مجھے کوئی طلب نہیں، وہ میرے پاس بہت ہے” خاتون نے ہونٹوں کو سکیڑتے ہوئے کہا ،
“اور کچھ ہو وہ بتا دیں؟” رافعیہ نے چہرے کو سنجیدہ بناتے ہوئے کہا،
” اور ہاں مجھے غصہ جلدی آتا ہے، اس حالت میں آگے سے وہ کچھ نہ بولے، بلکہ میرے غصے کو ختم کرنے کے لئے نرم و ملائم ہوجائے” خاتون نے گویا بڑی راز کی بات بتائی ،
رافعیہ دل ہی دل میں مسکرائی بھی اور اسے غصہ بھی آیا کہ خاتون کو رشتے میں صرف اپنی ذات ہی نظر آتی ہے دوسرا اس کے بارے میں کیا رائے قائم کرتا ہے اسے ذرا پرواہ نہیں ، وہ کچھ سوچنے لگی، پھر اچانک اس کے چہرے پر مسکراہٹ سی پھیل گئی، اس کی نظر ایک رشتہ تھا، اگرچہ وہ اس کے معیار پر تو پورا نہیں اترتا تھا لیکن ان دونوں کا ٹاکرا کروا کر اس خاتون کو زندگی کی حقیقتوں کے بارے میں آگاہ کیا جاسکتا تھا،
“میری نظر میں ایک رشتہ ہے، اگرچہ وہ بھی آپ کی طبیعت اور مزاج سے ملتے جلتے لگتے ہیں، مگر پھر بھی اگر آپ کہیں تو ہم انھیں یہاں بلا کر ملاقات کروا سکتے ہیں” رافعیہ نے خاتون کی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا،
“ٹھیک ہے آپ انھیں ملاقات کے لیے بلا لیں،مجھے میسج کردینا،میں بھی آجاؤں گی” یہ کہہ کر اس نے پرس اٹھایا اور بڑے ناز چلتی بنی،
رافعیہ نے اس کے جاتے ہی اپنے دست راست فیصل کا نمبر ملایا اور اسے کال پر ساری صورتحال سے آگاہ کردیا،
“فیصل، آپ کے لئے بڑی امیر خاندان کا رشتہ ہے، اگر آپ چاہیں تو اسے ہینڈل کرسکتے ہیں” رافعیہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا،
“بھئی مجھے مال دولت سے کوئی دلچسپی نہیں، مجھے ایک ایسی بیوی درکار ہے جو مجھے زندگی کے ہر موڑ پر آسانی سے سمجھ سکے اور ایک لچکدار ساتھی ثابت ہو” فیصل نے ترش سے لہجے میں کہا،
“اچھا جناب آپ کل وقت پر آجائیں، ملاقات میں خاتون کو خود ہی قائل کرنے کی کوشش کرنا”رافعیہ نے ہنستے ہوئے کہا،
“ٹھیک ہے میں آجاؤں گا”یہ کہہ کر فیصل نے کال ختم کردی ،
اگلے روز فیصل وقت پر دفتر پہنچ گیا ، وہ خاتون بھی پہلے ہی سے وہاں موجود تھیں،
“سلام علیکم ، مجھے دیر تو نہیں ہوئی؟” فیصل نے خاتون کے ساتھ رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ،
“مردوں کو وہاں وقت کا احساس خوب ہوتا ہے جہاں کوئی دلکش عورت موجود ہو” خاتون نے منہ بسورتے ہوئے کہا ،
“یہاں تو کوئی ایسی دلکش عورت کا نام و نشان نظر نہیں آتا ” فیصل نے منہ بناتے ہوئے کہا ،
“انسان کا حسنِ نظر فوت ہو جائے تو کچھ عقل ہی سے کام لے لے” خاتون نے بھی جلتی ہی تیل چھڑکا،
رافعیہ نے جب ماحول گرم ہوتا دیکھا تو فوراً بیچ میں بول پڑی ،
“میرے خیال ہمیں اپنے مقصد کی طرف آنا چاہیے” رافعیہ نے محتاط انداز میں کہا،
“یہی وہ مقصد ہے جس سے آپ ملوانا چاہ رہی تھیں ، مجھے تو ان میں کہیں سے بھی ایک اچھے شوہر کے آثار نظر آتے ہیں” خاتون نے طنز سے کہا،
“ویسے آپ کو اس دنیا میں اپنے مطلب کا شوہر تو مشکل ہی سے دستیاب ہوگا” فیصل نے بھی طنز سے کہا،
“آپ غمزدہ نہ ہوں، اسے تلاش کرنا میرا کام ہے، آپ کیوں ہلکان ہو رہے ہیں؟” خاتون نے ترش رو ہوکر کہا،
“شوق سے کیجئے تلاش، اللہ رحم ہی کرے اس بندے پر، پتا نہیں اسے کس گناہوں کی سزا ملے گی” فیصل نے بھی حد ہی کردی،
” کیا مطلب ہے آپ کا، آپ اپنے آپ شاید کوئی انوکھی چیز سمجھتے ہیں کیا، حد میں ہی رہیں تو اچھا ہوگا” خاتون نے غصے میں پھنکارتے ہوئے کہا ،اور ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی اور رافعیہ سے کہنے لگی؛
“اس قسم کے واہیات رشتے کراتے ہیں آپ لوگوں کے، جن کو عورت کے ادب و احترام کا بھی پاس نہیں” خاتون نے طنز سے کہا،
“عورت کا احترام تو ہم اچھے سے کرتے ہیں، مگر عورت بھی تو اخلاقیات کا دامن نہ چھوڑے نا” رافعیہ نے سمجھاتے ہوئے کہا ،
“بس جی اپنے پاس رکھیں یہ اخلاقیات، ہمیں سب پتا ہے کہ کس سے کس لہجے میں بات کرنی ہے، ہم بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں” خاتون نے بگڑتے ہوئے کہا،
خاتون نے غصے سے پاؤں پٹخے اور زور سے دروازہ کھول کر چلتی بنی،
فیصل ہونقوں کی طرح منہ پھاڑے رافعیہ کی طرف دیکھ رہا تھا،
” یہ کیا چیز تھی؟” فیصل نے غصے سے کہا،
” ہمارے معاشرے کی آزاد عورت تھی، جو ایک عدد خاوند کا بندوبست کرنے آئی تھی” رافعیہ نے مسکراتے ہوئے کہا ،
شہزاد مجید شاہ