بچوں کی تربیت ۔۔۔میں تفریق نہ کریں ۔۔۔
تحریر۔۔۔محمد علی سید
انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظیمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوزانٹرنیشنل ۔۔۔ بچوں کی تربیت ۔۔۔میں تفریق نہ کریں ۔۔۔ تحریر۔۔۔محمد علی سید۔۔۔ انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظیمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ )بچوں کی پرورش میں والدین کی یکساں توجہ بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
بچے قدرت کا ایک انمول عطیہ ہیں جو لوگ اس نعمت سے محروم ہیں ان کی تڑپ دیکھ کر بچوں والے ماں باپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے انہیں کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے۔ شادی ہونے کے بعد جب عورت کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ماں بننے والی ہے تو اس کی خوشی قابل دید ہوتی ہے اس کا شوہر بھی اس خوشی میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ ماں بننے کے لیے تکلیف وہ مراحل سے گزر کر جب ایک معصوم سا وجو دماں کے ہاتھوں میں آتا ہے ، تو وہ اپنی تمام تکالیف بھول جاتی ہے بچہ ماں کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے جو اسے اپنی جان سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔
بچے کے دنیا میں آنے کے بعد ماں باپ کی توجہ اس پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ اس کی ہر آواز پر وہ لپک کر جاتے ہیں اس کی معمولی سی تکلیف کا درد وہ اپنے اندر محسوس کرتے ہیں اس کی پرورش خو شگوار ماحول میں ہوتی ہے۔
ایک بچے کے بعد دوسرا بچہ بھی اس ماحول کا حصہ بنے آجاتا ہے جب دوسرا بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو بعض اوقات ماں باپ کی توجہ کی مرکز اب وہ دوسرا بچہ ہے ان کی محبت تقسیم ہو جاتی ہے پہلے بچے کو نظر انداز کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں والدین کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
بعض والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ دو بچوں کے درمیان میں کم از کم تین سال کا فرق تو ہو۔ تین سال کا بچہ ماں باپ کی بدلی ہوئی نظر کو بخوبی پہچان سکتا ہے اس سلسلے میں کچھ والدین یہ رویہ بھی اپناتے ہیں کہ دوسرے بچے کی صرف ضرورت پوری کر دیتے ہیں جبکہ پہلے بچے کو ہی اپنی توجہ کا مرکز بنائے رکھتے ہیں۔ طریقہ جو بھی ہو اس میں ایک بچہ تو نظر انداز ہو رہا ہے۔ بچے کا معصوم ذہن یہ نہیں سمجھ پاتا ہے کہ
آخر اس نے ایسا کیا کیا ہے جو اس کے امی ابو اب اس کی بات نہیں سنتے ، بچے یہ بات پسند کرتے ہیں کہ ان کے گھر میں کوئی چھوٹا سابچہ ہو لیکن جب وہ چھوٹا بچہ ان کے گھر آجاتا ہے تو اس کو ملنے والی توجہ سے وہ اس ننھے مہمان کو اپنا رقیب تصور کر لیتا ہے، ایسے وقت میں والدین کو محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ والدین دوسرے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی یہ طے کر لیں کہ انہیں آئندہ کس طرح دونوں بچوں کو سنبھالتا ہے اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات مفید ہو سکتے ہیں۔
بچے کو آنے والے مہمان کے لیے راضی کریں:
والدین پہلے تو خود کو ذہنی طور پر آمادہ کریں کہ اب ایک اور بچے کی ضرورت ہے پھر اپنے پہلے بچے کو سمجھائیں کہ اب تمہارا دوست آنے والا ہے۔ اس کو کسی قریبی رشتے دار کی مثال دیں کہ وہ دیکھو گڑیا کا بھائی کتنا پیارا ہے یا سارہ کی چھوٹی سی گڑیا بہن ہے جو تمہارے ساتھ کھیلے گا، باتیں کرے گا اور بھائی جان کہے گا یا ایک بہن ہم لائیں گے اس کو پیار کرنا، اس کے کام کرناوغیرہ وغیرہ۔ دوسرے بچے کی پیدائش تک پہلے بچے کو اچھے انداز میں سمجھاتےرہیں۔
اس سے چھوٹے چھوٹے کام لیں :
پہلے بچے کو یہ سمجھائیں کہ مما کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ جب نوزائیدہ بچے کے کپڑے بدلیں تو بڑے بچے سے صاف کپڑے منگوائیں کہ جاؤ بیٹا سامنے سے وہ کپڑا لے آؤ یا گندے کپڑے ربن میں ڈلوائیں اسی طرح پاؤڈر اور لوشن کا ڈبہ منگوائیں یہ اشیاء پہلے سے ہی سامنے رکھیں۔
جب بچہ یہ لادے تو ان کو پھر اوپر رکھیں تا کہ وہ والدہ کی غیر موجودگی میں خود سے استعمال نہ کرے اسی طرح دونوں کو توجہ ملے گی۔
بچوں کو تعصب سے بچائیں:
گھر میں دونوں یا تینوں بچے بڑے ہو رہے ہیں اور یہاں والدین کو بہت ہوشیاری سے کام لیتا ہے بچے کی صنف، رنگت، شکل و صورت، اسکول میں کار کردگی، دوستوں کی تعداد وغیرہ ایسے عوامل ہیں جن کا بچوں پر بہت اثر پڑتا ہے۔
بچے میں بڑوں کی خاموش نگاہیں پڑھ لینے کا ہنر ہوتا ہے کچھ نا سمجھ والدین شکل و صورت کی بنیاد پر بھی ایک بچے کو دوسرے بچے پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ منہ سے نہ بھی بولیں پھر بھی نظر انداز ہونے والا بچہ اپنی خامی کو جان جاتا ہے۔
اسی طرح لڑکوں کو لڑکی پر فوقیت دینا یا ذہین بچوں کو کم ذہن بچوں پر ترجیح دینا وغیرہ یہ عوامل ایک بچے کے لیے تو خوش کن ہیں لیکن دوسرا بچہ جو ان تمام عوامل میں نظر انداز ہو رہا ہوتا ہے ایسے بچے آہستہ آہستہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مسلسل ان کو نظر انداز کیا جائے تو دوسرے بچوں کے لیے ان کے دل میں غلط جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بچے تعصب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بات بے دوسرے بچوں سے جھگڑتے ہیں، ان کی شکایت کرتے ہیں۔ اپنی خامی پر قابو کے بجائے مزید جذباتی ہو جاتے ہیں۔
تدارک:
والدین بچوں کو اخلاقی اصول سکھائیں، بچوں میں فرق نہ برتیں، اگر ایک بچہ زیادہ خوبصورت ہےتو اسے اہمیت نہ دیں، بچے اللہ کی طرف سے تحفہ ہیں اور ان کے ساتھ رویے برابر ہونے چاہئیں۔ بچوں کو دوسروں کے سامنے ہر گز نہ ڈانٹ ڈپٹ کریں اگر اسد لڑکا ہے اور سارہ لڑکی تو بار بار یہ نہ بولیں کہ یہ تو لڑکا ہے اس کو فلاں کام کرنے دو یا بھائی یہ چیز دے دو تم رہنے دو وغیرہ …. اگر بیٹی زیادہ ذہین ہے تو دوسرے بچوں کو کم عقل ہونے کا طعنہ نہ دیں بلکہ انہیں زیادہ توجہ اور پیار دیں۔
بچوں کو سوچنے اور فیصلہ کرنے کا موقع دیں:
بچے جیسے جیسے بڑے ہونے لگتے ہیں چاہتے ہیں کہ وہ خود سے کچھ کریں، بلکہ خود اپنے بچے کو احساس دلائیں کہ اب اسے خود سے سوچنا چاہیے جیسے اگر 200 یا پلے گارڈن جانا چاہتے ہیں تو فیصلہ بچوں کو کرنے دیں، پہلے اپنا نقطہ نظر بیان کریں پھر بچوں سے کہیں کہ ہاں بھئی اب خود سوچو اور فیصلہ کرو کہ ہمیں کہاں جانا چاہیے۔ یہاں یہ خیال ضرور رکھیں کہ اس کام میں سارے بچے شامل ہوں۔ جب بچے اپنا فیصلہ سنادیں تو اس کا خیر مقدم کریں لیکن بچے تو بچے ہیں وہ غلط فیصلہ بھی کر سکتے ہیں یہاں ہو شیاری سے کام لے کر فیصلے میں ترمیم کر لیں۔
بچوں پر اپنی مرضی نہ مسلط کریں، کسی ایک بچے کی نہ سنیں بلکہ دونوں کی بات پر دھیان دیں۔ بچوں کو ۔ بڑوں کی رہنمائی کی ضرورت ہر لمحہ رہتی ہے اس لیے مسئلے کا حل ایسا ہو کہ بچے بھی خوش رہیں اور والدین کی بات بھی قائم رہے۔
بچوں کو ایک نظر سے دیکھیں:
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ ہمیشہ یکساں برتاؤ کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ والدین اپنے سب ہی بچوں سے ایک سی محبت کرتے ہیں لیکن اکثر اوقات ان کا رویہ ایک کے ساتھ اچھا اور دوسرے کے ساتھ غلط ہو جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اکثر بچے فطری طور پر ذہین اور سلجھے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ بچے شرارتی ہوتے ہیں لیکن والدین کا رویہ دونوں
سے برابر ہونا چاہیے۔
بچوں کو یہ احساس نہ ہونے دیں کہ ان میں سے ایک اچھا اور دوسرا غلط ہے۔ علیحدگی میں بچوں کو سمجھائیں۔ کہانی کے ذریعے اچھی باتیں بچوں کو بتائیں دوسرے بچے کی خوبی اس طرح ظاہر کریں کہ اسے اپنے اندر کمی کا احساس نہ ہو۔
اگر بچہ دوسرے بچے کی شکایت کر رہا ہے تو چاہے وہ صحیح ہے یا غلط پہلے پوری بات سن لیں اور جو بھی اس مسئلے کا حل ہے وہ صحیح طریقے سے بچوں پر ظاہر کریں، چھوٹے بچوں میں یہ صلاحیت پیدا کریں کہ وہ اپنے سے بڑے بچوں سے اچھی باتیں سیکھے اور بڑے بچوں میں چھوٹوں سے محبت کااحساس پیدا کریں۔
بات صرف کوشش کی اور سمجھنے کی ہے۔ ماں اور بچے کارشتہ ایک نہایت خوبصورت اور عظیم رشتہ ہے۔ ماں تو بچے کے بولنے سے پہلے اس کے دل کا حال جان جاتی ہے۔
ضروری یہ ہے کہ اپنے احساست اور جذبات کو اچھے طریقوں سے ظاہر کرتے ہوئے اس کی اچھی تربیت کریں تاکہ اس کے اچھے طور طریقوں سے خود اس کا اور اس کے ماں باپ کا نام روشن ہو۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2019