Daily Roshni News

بچوں کی سماجی صحت

بچوں کی سماجی صحت

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2020

ہالینڈ(ڈیلی روشنی انٹرنیشنل۔۔۔ بچوں کی سماجی صحت) عمر کی دوسری دہائی میں یوں محسوس ہو تا ہے کہ جیسے بچوں کا رویہ اچانک ہی بدل گیا ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل میں چودہ پندرہ برس کی عمر میں ہوتا ہے۔بچے والدین سے دور دور رہنے لگتے ہیں اور دوستوں میں ان کا دل زیادہ لگتا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے در میان بلا تکان گفتگو کرتے ہیں۔ماں یا باپ کے سامنے آکر جیسے بولنا ہی بھول جاتے ہیں۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی دور بلوغت کے آغاز کی ایک علامت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گیارہ برس سے قبل پچھے اپنی ہر بات والدین سے کہنا چاہتے ہیں۔ اس وقت والدین ہی ان کی پہلی ترین ہوتے ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا ہے ان کی ترجیحات بدلتی جاتی ہیں۔ ان کی پہلی ترین دوست ہوتے ہیں ان کے بعد مکنہ طور پر استاد اور سب سے آخر میں والدین ہو جاتے ہیں۔

کولمبیا میڈیکل سینٹر (نیوپاک) سے وابستہ ڈاکٹر کنڈائس ارکسن کہتی ہیں۔ دور بلوغت میں بچے اپنا اظہار چاہتا ہے۔ اگر گھر کا ماحول کہنے کے لیے ساز گار ہو۔ اسے کسی خوف کے بغیر اپنی باتیں کہنے کی فضا میسر ہو تو بچہ گھر یا والدین سے دور نہیں ہو گا۔

عمر کے اس حصے میں نت نئی تبدیلیوں سے دو چار ہونے والے لڑکے اور لڑکیاں اپنے مسائل کے حل کے لیے رہنمائی چاہتے ہیں۔ وہ اپنے مسائل پر تبادلہ خیال کے طلب گار ہوتے ہیں اگر انہیں والدین کا مثبت رویہ ملے تو وہ انہی کو دوست بنالیں کے اس عمر کے اپنے جیسے مسائل اور سوچ رکھنےوالے ہم عمر دوستوں سے رجوع نہیں کریں گے۔

دور بلوغت میں نے والدین سے اس وقت دور بھاگتے ہیں جب وہ انہیں نصیحت کرنے لگیں۔ عمر کے اس حصے میں روک ٹوک یاکسی بھی قسم کی نصیحت پچ عمو پسند نہیں کرتے۔ انہیں اس عمر میں محتسب کے بجائے مشیر اور رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اعتبار

سے والدین کا کردار ایک مشیر (کنسلٹنٹ) کی طرح ہونا چاہیے۔ ایک کاروباری مشیر معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتا ہے نہ ہی وہ حتمی فیصلہ سناتا ہے۔ وہ پوری توجہ سے سنتا ہے اور مسائل کے حل کے لیے امکانات کے انتخاب میں رہنمائی فراہم کر تا ہے۔

جب بچہ کوئی ’’حماقت کر بیٹھے تو اس پر نصیحتوں کی بوچھار مناسب نہیں۔ غلطی کرنے والےبچے کو اپنی حماقت کا اندازہ لگانے کا موقع فراہم کیا جائے تا کہ وہ خود ہی کسی نتیجے پر پہنچے۔

نو عمری میں بچوں کی نگرانی ضروری ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انہیں اس نگرانی کا احساس نہ ہو۔ماہرین کے نزدیک گھر کا ماحول اس اندازسے ہو کہ بچوں کو پرائیوی“ کا احساس بھی رہے۔ گھر کا کوئی گوشہ ایسا ضروری ہونا چاہیے جو انہیں اپنی ملکیت محسوس ہو۔ وہ اس جگہ رہنا پسند کریں۔ یہ گوشہ گھر سے منسلک گر نسبتا الگ تھلگ ہو جہاں وہ رہ سکیں، کھیل لیں، یا دوستوں کے ساتھ وقت گزار سکیں۔

یہ صورت حال اس لحاظ سے مفید ہے کہ چھے گھر میں رہتے ہیں، می اندیشے کے بغیر محفل جما سکتے ہیں اور یہ کہ ان کی مصروفیات پر نگاہ بھی رکھی جاسکتی ہے۔

بچے اور والدین کے در میان ربط کے لیے ضروری ہے کہ والدین وہ انداز اپنائیں جو بچوں کو ان کی باتیں سننے پر آمادہ کرے اور وہ ان سے اپنی باتیں کہنے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔ بہت سی باتیں تحریری صورت میں زیادہ موثر ہوتی ہیں۔ خصوصا وہ باتیں جو والدین اپنے بچوں سے کہنا دشوار سمجھتے ہیں۔ لکھی بات زیادہ موثر ہو سکتی ہے کہ اس میں موثر دلائل دیے جاسکتے ہیں۔ پھر یہ فیصلہ کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے کہ واقعا کیا کہنا چاہتے ہیں تحریر بار بار پڑھی جاتی ہے۔ اس پر زیادہ بہتر انداز سے غور کیا جاتا ہے بہت سے موضوعات پر بچوں کا علم سرسری یا ان کے حلقہ احباب کی یی کی معلومات کا حاصل ہوتا ہے۔ بچوں کو پر اعتماد اور مضبوط دیکھنے کے طلب گار کئی والدین بھی (خصوصا لڑکیوں کو اس دور کی بنیادی اور لازمی معلومات فراہم نہیں کرتے ہیں۔ دور بلوغت میں آنے

والی ہنگامہ خیز تبدیلیاں بچوں کو جھٹکا سکتی ہیں۔ انہیں جلنے سے محفوظ رکھنے کے لیے تحریر (یا اس حوالے سے کسی مضمون یا کتاب) کی مدد لی جاسکتی ہے۔ بہت سی صورتوں میں بچوں کو صرف اور صرف دردانه روپے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی اداسی یا دکھ کا ازالہ پوچھ کجھ یا جرح سے نہیں ہو سکتا۔ یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ کب ایسا کیا جائے تاہم جب بچے کندھے پر سر رکھ کر رونے میں سکون محسوس کرے تو اسے رونے دیں۔ اس سے کچھ مت پوچھیں۔ اس کے دل کا غبار چھٹ جانے دیں۔

دور بلوغت سے گزرنے والوں کے لیے اس دور کی باتیں بھولی بسری یادیں بن جاتی ہیں۔ اس اعتبار سے ماہرین ’بڑوں کے لیے بھی رہنمائی ضروری خیال کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دور بلوغت سے گزرنے والے بچوں کی تربیت اور پرورش خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ عمر کے اس حصے میں بچے کو ایک سمجھدار اور ذہین فرد کی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ ان کے قریب ایسا فرد ضروری ہے جو وقت پڑنے پر ان کی مدد کر سکے۔

ماں یا باپ یہ کردار زیادہ اچھی طرح ادا کر سکتے ہیں۔

دور بلوغت بچے کی آئندہ زندگی پر دور رس اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس دور

میں نے بہت سی تبدیلیوں سے گزر کر بہت کچھ سیکھ کر ایک نئی شخصیت میں ڈھلتے ہیں۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2020

Loading