بچے خوف زدہ کیوں ہوتے ہیں۔۔۔؟
تحریر۔۔۔طوبی دانش
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ بچے خوف زدہ کیوں ہوتے ہیں؟۔۔۔ تحریر۔۔۔طوبی دانش)بچپن کے دور میں بچے کے ذہن پر کسی بات کا خوف مسلط ہو جائے تو پھر عموما اس کی ساری زندگی اس خوف میں ہی بسر ہوتی ہے۔ خوف کے ماحول میں پلے ہوئے بچے زندگی کے ہر موڑ پر ذراذرا سی بات پر خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی تربیت میں یہ نکتہ پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ خوف زدہ بچے بڑے ہو کر کئی قسم کے نفسیاتی مسائل اور خود اعتمادی کی کمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ بچوں کو مناسب آزادی اور اچھا ماحول فراہم کرنا والدین کا اولین فرض ہے۔ بچوں کو بعض قسم کے اختیارات بھی دیں تا کہ وہ انہیں استعمال کر کے اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کر سکیں۔ صحت مند تربیت سے بچوں میں ڈراؤنے خواب دیکھنے کا امکان بھی بہت کم ہو جاتا ہے اور بچے بستر میں پیشاب بھی نہیں کرتے۔ بعض بچے فطرتا بہت زیادہ حساس یا ڈرپوک ہوتے ہیں۔ ذراسی بات یا غلطی پر ان کے ذہن خوف سے بوجھل ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کے وہم اور خدشے ان کے دل میں پیدا ہونے لگتے ہیں۔ بچوں سے اکثر اوقات پیسے کھو جاتے ہیں یا کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے تو ماں باپ بہت زیادہ مار پیٹ کرتے ہیں۔
یہ رویہ بچے کو کسی بھی وقت بہت زیادہ خوف زدہ کر سکتا ہے۔ والدین کا رویہ ہمدردانہ اور شفقت بھرا ہونا چاہیے لیکن بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ وہ خود سری میں مبتلا بھی ہو سکتا ہے۔
تھوڑا بہت خوف بچے کے دل میں بہت ضروری ہے تاکہ وہ بے راہ روی اور غلط قسم کی حرکتوں کا مر تکب نہ ہو سکے۔ لیکن آپ کی تربیت کا انداز کچھ اس طرح کا ہو کہ بچہ خوش، بے باک اور الجھنوں سے پاک زندگی بسر کر سکے۔ بچہ کسی خوف میں مبتلا ہو تو اس کا ے علاج کچھ مشکل نہیں اپنے بچے کو کھیل کا سامان اور موزوں ساتھی تلاش کرنے میں مدد دیجیے اس کے جائز تقاضوں کا احترام کیجیے۔ آرام دھماحول اور پر مسرت فضاء میں پلنے والے بچوں کو ڈراؤنے خواب کم دکھائی دیتے ہیں وہ زندگی میں بات بات پر لوگوں سے خوف زدہ نہیں ہوتے نہ ہی والدین کے خوف سے گھروں سے بھاگتے ہیں گھروں سے بھاگنے والے بچے اکثر خوف اور تشدد کے تحت ایسا کرتے ہیں یوں ذرا سا خوف ان کی ساری زندگی کو تباہ کر دیتا ہے اور اسے معاشرے میں بھی عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ بسا اوقات بچے کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ گھر اور مدرسے کے ماحول میں بندھا ہوا ہے۔
جب یہ صورتحال پیدا ہو جائے تو محرومیت اور خوف کا احساس اس کے ذہن کو خوف میں مبتلا رکھتا ہے اور مایوسی بھر اماحول اس کی شخصیت کی مناسب نشو و نما کو بہت متاثر کرتا ہے بے جا پابندیوں کے باعث انہیں ان کے مزاج کے مطابق نتہائی میسر نہیں آتی کہ وہ آزادی سے کھیل سکیں۔ قدم قدم پر ان کو یہ دھنڑ کا لگا رہتا ہے کہ اگر یہ کھیل کھیلا تو جھڑکیاں کھانی پڑیں گی۔ لہذا وہ آزادی کا خواہشمند ہوتا ہے۔ کچھ بچے مسلسل خوف اور بزرگوں کے تکلیف دو رویے کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً بعض بچوں کو نیند میں بڑ بڑانے کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ یا پھر وہ ڈراؤنے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ کچھ بچوں کا پیشاب بستر پر خطا ہو جاتا ہے۔ لہذا بچوں کو اس تشویشناک صورتحال سے بچانے کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ محبت شفقت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور نہ ہی اس قسم کا رویہ اختیار کریں جس سے بچہ خوف زدہ رہے۔ والدین کے جھگڑے بھی بچوں میں خوف پیدا کرتے ہیں کیونکہ ہر وقت مار پیٹ، چیخ و پکار، بچے کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔ ایسے بچے کی کئی صلاحیتیں پروان نہیں چڑھ پاتیں۔ گھر میں لڑائی جھگڑے کے ماحول میں پلنے والے بعض بچوں کے ذہن میں دوسروں پر عدم اعتماد،
نفرت یا بدلہ لینے کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ جب کبھی بھی اس کو موقع ملے گاوہ اپنی نفرت کا اظہار خواہ وہ باپ کے رویے سے ہو یا ماں کے، منفی طریقہ اختیار کر کے کرے گا۔ والدین کو چاہیے جھگڑے کا اظہار یا توڑ پھوڑ، برتنوں کا پھینکنا بچوں کے سامنے بالکل نہ کریں۔ اس طرح خوف بچے کے ذہن پر بری طرح مسلط ہو جاتا ہے اور وہ ذہنی مریض بھی بن سکتا ہے۔
مخوف زدہ بچہ ذہنی امراض میں مبتلا بھی ہو سکتا ہے ناخواندگی کے باعث مائیں بچوں کو باپ کی سخت عادت یا جن بھوت کی باتیں کر کے خوف زدہ کرتی رہتی ہیں۔ ابتدائی پانچ سالوں میں بچے کو خوف و ہر اس کے ماحول سے دور رکھیں۔
چھوٹی عمر میں بچے عام طور پر خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ایک طبی ماہر کا کہنا ہے کہ تین برس کی عمر تک بچے کی جذباتی زندگی کی بنیادیں تقریباً مکمل طور پر مضبوط ہو جاتی ہیں۔ یعنی اس عمر میں والدین جس انداز میں چاہیں، بچے کو ڈھال لیں۔ یعنی یہ وہ عمر ہے کہ اگر والدین چاہیں تو بچے کو متوازن شخصیت والے نڈر بالغ کی صورت پروان چڑھالیں، یا ایک ایسا غصیلا و ہی اور بزدل نوجوان بنائیں جس کی تمام زندگی طرح طرح کے خوف اور ڈر سہمی سہی گزرے۔
عالمی ادارہ صحت کے زیر اہتمام بچوں کی نفسیات پر ایک تحقیق کی گئی اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ خیال انگیز زندگی میں کھلبلی مچانے والے واقعات بچوں کو بچپن میں بے پناہ نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کی آئندہ بالغ زندگی میں بھی مسرت، مطابقت، توازن اور کامیابی کے امکانات کو کم کر دیتے ہیں۔
بچوں کو بے جا خوف سے نجات دلانا ابتدائی تربیت کا اہم پہلو ہے۔
والدین کے غلط رویوں کے باعث یہ خوف بچے کے دل میں گھر کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ عموما گھروں میں والدین بچے کو منع کرنے کی غرض سے کہہ دیتے ہیں کہ خبردار ایسا کیا تو ڈائن پکڑ لے گی۔ بابا پکڑ کر لے جائے گا۔ ایسے طریقوں سے بچے کے ذہن میں ڈر خوف بلاوجہ گھر کر جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض اوقات بچے کھیلتے کھیلتے کسی ایسی چیز کو پکڑ لیتے ہیں جس کے ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو کچھ گھروں میں ایک دم چیخ مار کر بچے کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور خوفناک چیخ کے باعث وہ چیز خود بخود گر کر ٹوٹ جاتی ہے۔ جس سے بچہ مزید خوفزدہ ہو جاتا ہے ماں یہ کام پیار اور آہستہ لہجے میں بھی کر سکتی ہے، تا کہ بچہ ٹوٹنے والی چیز کو دوبارہ نہ چھوئے۔ اکثر مائیں بچے کو کسی عام سی بات پر ناراض ہو کر اسے بری طرح مارتی ہیں۔ اس طرح بچے کو جسمانی تکلیف ہوتی ہے اور بچے اس قسم کی تکلیفوں سے بہت گھبراتے ہیں۔ ماں کو یہ سوچ کر سکون تو میسر آجاتا ہے کہ بچہ اس پٹائی سے خوف کھانے لگا ہے، مگر اس کو شاید یہ معلوم نہیں ہو تا کہ اس طرح اس کی جذباتی زندگی بگڑ کر رہ جاتی ہے۔ بچوں کی ذہنی زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے بیشتر خوف اسی طرح کی ننھی ننھی ہاتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ گھر کے دیگر افراد اور نوکروں کو یہ ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ بچے کو جن، بھوت، چڑیل وغیرہ کی بابت نہ تو دھمکیاں دیں، نہ ہی کچھ بتائیں۔ اس سے ان میں مخوف کے علاوہ تو ہمانہ ذہنیت کی بنیاد پڑ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اکثر خوف کے باعث کئی ذہنی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ بچپن کے خوف بالغ زندگی میں دیوانگی کی صورت میں بھی نمودار ہوتے ہیں۔ بچوں کو کسی حد تک تیبہ ضرور ڈرائیے، کیونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ بعض ایسے خوف ہیں جن کا بچوں میں موجود ہونا لازمی ہے۔ مثلاً نقصان دینے والے مشاغل اور ضرور رساں اشیاء پر بے سوچے سمجھے ہاتھ ڈال دینے کے خوف مفید ہوتے ہیں۔ بجلی کے تاروں، ریڈیو، ٹی وی کے سوئچ وغیرہ کو چھونا۔ زہریلے جانور کی غلاظت سے دور رہنا ضروری ہے۔ ان تمام باتوں کو آسان فہم زبان میں بچوں کو سمجھایا جائے کہ ان کو چھونا نہیں چاہیے۔ اس قسم کی تربیت سے بچوں میں صحیح حالت سمجھنے کی فراست پیدا ہو جاتی ہے اور وہ فوراً بھانپ لیتے ہیں کہ کس خطرے رہناہی بہتر ہے۔ خوف کی مناسب روک تھام علاج سے بدرجہا بہتر ہے۔ بچوں میں ڈر اور خوف کا پیدا ہونا اسی حد تک درست ہے جہاں معاشرتی برائیوں کے پیدا ہونے کا امکان ہو تا کہ بچہ معاشرتی برائیوں کی لپیٹ میں بے خوفی کے سبب نہ آجائے۔ بیجا خوف آدمی کو بزدل اور کم ہمت بناتا ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2015