Daily Roshni News

بڑا مجرم

آپ میرے دفتر میں کیا کررہے ہیں ؟ انسپکٹر کاشان نے ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوئے سب انسپکٹر ظفر دلاوری سے پوچھا ۔ وہ ایک ضروری میٹنگ سے فارغ ہوکر پولیس اسٹیشن پہچے تھے ۔ سب انسپکٹر ظفر دلاوری کو اپنے دفتر میں دیکھ کر انھیں غصہ اگیا۔ یہ شخص انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔
میں ۔۔۔۔۔ دراصل وہ مجھے اپنی ایک فائل نہیں مل رہی تھی ، میں نے سوچا کہیں آپ کے کمرے میں نہ بھول آیا ہوں۔

سر میں معافی چاہتا ہوں ۔ انسپکٹر دلاوری اپنے مخصوص انداز میں دانت نکالتے ہوے بولا۔
انسپکٹر کی شان میں لمبی سانس لی اور اس طرف قہر الود نگاہوں سے دیکھا ۔“ آپ فوراََ اپنے کمرے کا رخ کریں ۔۔۔۔۔ اور ہاں شاداب نگر کے کیس کا کیا بنا َ میں نے آپ کو گواہوں سے دوبارہ ملنا کا کہا تھا ۔انسپکٹر کاشان نے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا: مجھے کل دس بجے اس کیس بارے میں تفصیلی رپورٹ چاہیے۔

انسپکٹر کاشان ابھی ٹھیک طرح سے کرسی پر نہیں بیٹھے تھے کہ برآمدے میں ایک شور سا ہوا ۔ انھوں نے اردلی کو بلایا اور اس شور کی وجہ پوچھی ۔
جوان وہ سپاہی ایک جوان آدمی کو پکڑ لائے ہیں ۔ یہ شور اس نے مچا رکھا ہے ۔ ڈیوٹی آفیسر اسے اپنے کمرے کی طرف لے جارہے ہیں ۔ اردلی نے اطلاع دینے والے انداز میں بتایا ۔#
ڈیوٹی افیسر سے کہیں اس آدمی کو میرے پاس لئے ائیں ۔
انسپکٹر کاشان نے ہدایت دیں ۔
تھوڑی دیر بعد سپاہی ایک شخص کو ہتھکڑیاں لگے ایک شخص کو سامنے لے آیا ۔ انسپکٹر کاشان نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے کہا ،“جناب یہ آدمی بہت بدبخت ہے ، نشے کا عادی ہے ۔ اس کی عمر اور اس کا قد کاٹھ دیکھیں ۔۔۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی اور صحت سے کھیل رہا ہے ماں باپ اور محلے داروں کا ناک میں دم کر رکھا ہے اس نے ۔
اس کا بدنصیب بھی باہر کھڑا ہے۔
انسپکٹر کاشان نے ملزم کے باپ کو فوراََ اند ابلایا ۔ وہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا ۔ سر پڑ ٹوپی سر اور داڑھی کے ادھے زیادہ بال سفید چہرے پر مایوسی آنکھوں میں درد اور بے چارگی ۔ وہ ایک ہارے ہوئے جوارئی کی طرح نظر آرہا تھا ۔ اس کی آنکھیں انسوؤں سے چھلک رہی تھیں ۔ جناب میں اس بدنصیب کا باپ ہوں ۔ میرا نام بشیر انصاری ہے ۔

میری کپڑے کی چھوٹی سی دوکان ہے ۔گھر کا خرچ بڑی مشکل سے چلتا ہے میری تین بیٹیاں بھی گھر پڑ بیٹھی ہیں ۔ یہ کم بخت میرا اکلوتا بیٹا ہے ۔ اس کا نام کبیر ہے۔ انسپکٹر کاشان قدرے مصروف تھے لیکن اس کیس میں انہیں دلچسپی محسوس ہورہی تھی ۔ انھوں ایک نظر کبیر کی طرف دیکھا جو نظریں جھکا ئے کھڑا تھا ۔ وہ ایک دراز قد جوان تھا عمر تیس بتیس سال کے لگ بھگ ۔
سر کے بال گھنے لیکن الجھے ہوئے ۔ چہرئے پر نشے کے عادی افراد کی مخصوص نحوست ۔ داڑھی کے بال بڑھے ہوئے اور کپڑے میلے کچیلے ۔ انسپکٹر کاشان نے اس کے والد سے پوچھا یہ نشے کا عادی کب سے ہوا اور آج اس نے کیا حرکت کی کہ خود آپ نے پولیس کے ہاتھوں اسے گرفتار کروایا ؟
جناب میں وہی عرض کررہا تھا ۔ اس نے اپنی تعلیم ادھوڑی چھوڑ دی کیونکہ
میں دلچسپی نہیں لیتا تھا ۔

میں نے اسے دوکان پر بٹھایا تو دوکان بند ہونے کے بعد برے لوگوں کی صحبت مین رہنے لگا ۔ اسی دوران اسے نشے کی لت پڑ گئی ۔ میرا قصور یہ ہے کہ ایک اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے اس کے لاڈ اٹھاتا رہا اور اس کی بڑی حرکتوں کو نظر انداز کرتا رہا ۔ اب تو اس کی حالت یہ ہے کہ جب نشہ پرا کرنے کے لیے پیسے نہیں ملتے تو مار پیٹ پر اتر آتا ہے۔ آج شام سے اس نے گھر میں ادھم مچھا رکھا تھا ۔
نشے کے لیے پیسے مانگ رہا تھا ۔ گھر میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی ۔ برتن تک توڑ ڈالے کہ کسی گلاس یا پیالی میں چھپاکے نہ رکھے ہوں ۔جب ہر طرف سے مایوس ہوگیا تو ماں کے پاس آیا ۔ماں سمجھانے لگی اسے بری طرح دھکا دیا فرش پرگ گرادیا ۔ بہنوں کو الگ مارتا ہے ۔ بشیر انصاری کی آواز بر اگئی ۔ محلے والوں کی مدد سے اسے بڑی مشکل سے قابو میں کرکے اب تھانے میں خود لے کر آیا ہوں ۔

میری طرف سے اسے پھانسی میں لٹکا دیں یاں ہڈی پسلی ایک کردیں ، ہمارے لیے یہ مرچکا ہے۔“
بوڑھا باپ سسکیاں بھر رہا تھا،
انسپکٹر کاشان کی انکھوں میں اچانک ایک چمک پیدا ہوئی ، انہوں نے ڈیوٹی افیسر کو اشارے سے بلایا اور اس کے کان میں چپکے سے کوئی بات کہی ۔ وہ اقرار میں سر ہلا کر سیلوٹ کرکے کمرے سے باہر نکل گیا۔
اسے لے کر حوالات میں بند کردو۔
“ آپ اپنی شکایات درج کروائیں ۔ میں اس کا مزاج ابھی درست کرتا ہوں ۔
انسپکٹر کاشان اپنے کام میں ایسے مصروف ہوئے کہ انہیں پتا ہی نہیں چلا اور ادھی رات کا وقت ہوگیا ۔ اردلی نے اندر اکر اطلاع دی کہ ملزم کبیر کی والدہ آئی ہیں ۔
بشیر انصاری بھی اس کے ساتھ ہے اور وہ ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔
بشیر انصاری نے بے چارگی سے انسپکٹر کاشان کی طرف دیکھا اور کہا :“ جناب یہ بے چاری آخر ماں ہے ۔
رو رو کر کہہ رہی تھی کہ کبہر بھوکا پیاسا ہے اس کے لئے کھانا لے کر جاؤ ۔ پھر کہنے لگی نہ جانے حوالات میں ننگے پر اسے سردی میں کیسے سوئے گا ، اس کے لیے بستر لے جاؤ ۔ اگر اجازت دیں تو یہ دونوں چیزیں حوالات مین پہچا دوں ؟
انسپکٹر کاشان نے کہا یہ دونوں چیزیں میرے دفتر میں لے آئیں ،میں اپنے عملے کے ذریعے پہنچادوں گا آپ گھر تشریف لے جائیں ۔

دونوں سلام کرکے باہر چلے گئے انسپکٹر کو یقین تھا کہ بشیر انصاری ساری رات تھانے کے احاطے میں گزارے گا اور کبیر انصاری کی ماں بھی ساری رات انگاروں پر لوٹتی رہے گی۔ انسپکٹر کاشان نے بستر اور کھانے کے برتنوں کو ایک نظر دیکھا ۔ پھر کھانے کے برتنوں کو کھول کر گہری نظر سے جائزہ لیا ْ جس چیز کی انہیں تلاش تھی وہ جلد ہی مل مل گئی ۔ انھوں نے اسے مٹھی میں دبایا اور اردلی کو اندر طلب کیا ۔

یہ بستر اور کھانے کے برتن حوالات میں کبیر کو دے دو اور دیکھو ڈیوٹی افیسر واپس اگئے کے نہیں؟
جناب اردلی نے ادب سے جواب دیا جب میں اندر ارہا تھا تو ڈیوٹی افیسر اندر داخل ہورہے تھے۔“
ٹھیک ہے انہیں میرے پاس بھیجو ۔“
تھوڑی دیر بعد ڈیوٹی افیسر ایک خوف ناک چہرے والے شخص کو ہتھکڑیوں میں لے کر آخر دلدار پوڈری پکڑا گیا ۔

آنے والے شخص کو دیکھتے ہی انسپکٹر کاشان جوش میں اکر کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
اس شہر کا نامی گرامی منشیات فروش اور اس علاقے کا سب سے گھٹیا مجرم ۔ انھوں نے نفرت سے کہا۔
دلدار اپنے انجام سوچ کر لرز رہا تھا اور اس کے چہرے پر موت کی زردی چھائی ہوئی تھی ۔ انسپکٹر کاشان نے اپنی بند مٹھی کھولی اور اس میں دبی ہوئی نشہ آور پاوڈر کی پڑیا دلدار کے سامنے لہراتے ہوئے کہا مجھے یقینی تھا کبیر کی ماں ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر تم سے نشہ خریدے گی اور کھانے کے برتن میں چھپا کر اس تک پہچانے کی کوشش کرئے گی ، اس لیے میں نے ڈیوٹی افیسر کی فوری طور پر بشیر انصاری کے گھر روانہ کیا تھا چھپ کر ممتا کی ماری ماں کے تعاقب میں جائے اور اصل مجرم تک پہچے ۔

۔۔۔۔ تم نے کتنے گھر اجاڑے ہوں گے کتنی ماؤں کو تڑپایا ہوگا ۔ اب تم سے تمہارے ایک ایک جرم کا حساب ہوگا۔
سرکار سرکار رحم دلدار نے معافی مانگنے کے انداز میں ہاتھ جوڑے ہوئے تھے اور گھٹنوں کے بل گر کے منت کررہا تھا ۔
تم کسی رحم کے قابل نہیں ہوں اور تم سے زیادہ بڑا مجرم وہ ہے جس کی تم کارندے ہوں۔ اس کا نام سیدھی طرح بتاؤں گے یا تمہیں لٹکانا پڑئے گا ؟
ڈیوٹکی افیسر نے دلدار ہر چھڑیوں کی برسات کردی ۔

وہ ہر وار ہائے ہائے کرتا رہا۔ میں کچھ نہیں جانتا سرکار وہ مسلسل کہے جارہا تھا ۔
جناب اگر اجازت دیں تو کچھ عرض کروں ؟ ڈیوٹی انسپکٹر نے معنی خیز انداز میں انسپکٹر کاشان سے پوچھا ۔ ضرور ضرور انہوں نے سر ہلایا ۔
جناب میں جب خفیہ طریقے سے دلدار کے ٹھکانے پر پہنچا تو یہ موبائل پر اپنے بوس سے بات کر رہا تھا ۔ میں نے چپکے سے اس کی ساری گفتگو اپنے حساس وائس رکارڈ پر محفوظ کرلی ہے۔


ڈیوٹی افیسر نے ٹھوس لہجے میں کہا ساتھ ہی اس نے وائس رکارڈ کا بٹن دبا دیا ۔
دلاورصاحب ۔ دلدارد کی آواز ابھری آپ فکر نہ کریں کسی کو شک نہیں گزرے گا ۔۔۔ بس آپ سپلائی میں کمی نہ آنے دیں ۔۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔۔ میں سب کو سنبھال لوں گا ، جی ظفر صاحب آپ کے ہوتہ ہوئے ہمیں فکر کرنے کی کیا ضرورت کرنے کی کیا ضرورت ہے جناب آپ کی جلد ترقی ہوجائے تو کاروبار کا مزہ آجائے۔

انسپکٹر کاشان نجے چیتے کی طرح اپنی کرسی سے چھلانگ لگائی اور دفتر کے دروازے کی طرف لپکے ۔
ڈیوٹی افیسر چلایا سر بے فکر رہے میں ظفر دلاوری پر پہلے ہی قابو پاچکا ہوں ۔
انسپکٹر کاشان فوراََ مڑے ان کی آنکھوں میں حیرت ور تحسین کے ملے جلے تاثرات جھلک ر ہے تھے۔
معاف کیجیے گا سر یہ سب کاروائی میں نہ آپ کی اجازت کے بغیر ہی کرلی مگر ظفر دلاوری صاحب ہمارے سب انسپکٹر ہے۔

بالکل غلط انسپکٹر کاشان غلط لہجے میں بولے نہ وہ صاحب ہے نہ انسپکٹر ،
وہ ایک مجرم ہے قابل نفرت مجرم ۔ اس کا جرم دہرا ہے کیوں کہ اس نے قانون کی آڑلے کر قانون شکنی کی ہے اور ہمیں دھوکا بھی دیا ۔ وہ آستین کا سانپ ہے اور اس سانپ کا سر جتنی جلدی کچل دیا جائے اتنا ہی بہتر ہے ۔ ملزم کبیر کا علاج میں اپنی نگرانی میں کراؤں گا ۔

Loading