Daily Roshni News

بڑوں کا ادب

قاسم ایک بہت ہی ذہین بچہ تھا۔وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔کلاس کے ذہین ترین طلبہ میں اس کا شمار ہوتا تھا۔قاسم کو اللہ تعالیٰ نے ذہن تو اچھا دیا تھا،لیکن وہ بڑوں کا ادب نہیں کرتا تھا۔اساتذہ کرام کی نقل اُتارنا،چوری چھپے ان پر جملے کسنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
وقت گزرتا گیا اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔

اسی سلسلے میں اس نے ایک ہوٹل میں دوستوں کو پارٹی دی۔وہ پارٹی میں شرکت کے لئے اپنی موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک تیز رفتار کار نے اسے ٹکر ماری۔کار ڈرائیور تو وہاں سے رفو چکر ہو گیا،البتہ قاسم وہیں کراہتا رہا۔کچھ لوگوں نے انسانی ہمدردی کے تحت اسے ہسپتال پہنچایا۔وہاں پر اس کے گھر والوں کو بلایا گیا۔

کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے اس پر نقاہت اور کمزوری طاری تھی۔

اس کی ٹانگوں پر کافی زخم آئے تھے۔نتیجتاً اس کی دائیں ٹانگ کاٹ دی گئی۔
کافی عرصے تک وہ بستر سے لگا رہا۔اس کے دوست عیادت کے لئے اس کے پاس آئے۔رفتہ رفتہ وہ بے ساکھیوں کے سہارے چلنے کے قابل ہوا تو اب اس نے پڑھائی کو خیر آباد کہہ کر نوکری کی تلاش شروع کی،لیکن ایک ٹانگ سے معذور شخص کو کیا نوکری مل سکتی تھی۔
آخر اسے ایک سکول میں معمولی سکول ٹیچر کی نوکری مل گئی۔

جب وہ لنگڑا کر کلاس میں داخل ہوتا تو چند شریر بچے اس کی نقل اُتارتے اور جب وہ ان کی طرف دیکھتا تو وہ معصوم بن جاتے۔ان بچوں کو دیکھ کر اسے اپنا ماضی یاد آ جاتا․․․․اور سوچتا کہ کاش!میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب کرتا تو شاید مجھے یہ دن ہی نہ دیکھنے پڑتے۔اب صرف وہ تھا یا اس کا بیمار،لاچار اور معذور بدن یا پھر اس کا پچھتاوا۔

Loading