Daily Roshni News

بھولے خان۔۔۔ تحریر۔۔۔سید اسد علی۔۔۔(قسط نمبر1)

بھولے خان
تحریر۔۔۔سید اسد علی
(قسط نمبر1)
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ بھولے خان۔۔۔ تحریر۔۔۔سید اسد علی) گہری گہری سانسیں لیں اور مراقبہ کے انداز میں بیٹھ گئے ۔ ہم اس انتظار میں تھے کہ اب خیال ہمارے ذہن پر وارد ہو گا ۔ نہیں معلوم مشرق سے آئے گا یا مغرب سے نزول کرے گا۔ کچھ دیر بعد خراٹے سنائی دیئے اور ہم دبے قدموں اٹھے۔
ایک بار میں نے کسی جریدہ کے لئے ٹیلی پیتھی کے ساموضوع پر مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون کی نوعیت سمجھنے بھی کے لئے پہلے اس مضمون کا خلاصہ پڑھیں ۔


ٹیلی پیتھی خیالات کی منتقلی کا علم ہے جس میں لہروں سے کا علم حاصل کیا جاتا ہے ۔ روز مرہ زندگی میں اس کی کئی میں مثالیں ہیں ۔ جیسے کہ بچہ بھوکا ہے، روکر بھوک کا اظہار کرتا ہے اور ماں سمجھ جاتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی ہونٹوں کی خفیف جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل افراد گونگے فرد کے دل کا حال اور احساسات سمجھ لیتے ہیں۔ انہیں ” معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے ۔ جو افراد گونگے نہیں ہیں ، وہ بھی خاموش رہ کر ایک دوسرے کے حال سے مطلع ہوتے ہیں ۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو اپنے حال سے مطلع کرتے ہیں۔ روحانی ہستیاں بتاتی ہیں کہ درخت آپس میں گفتگو کرتے ہیں حتی کہ یہ گفتگو صرف آمنےسامنے کے درختوں میں نہیں ہوتی ، ایسے درختوں میں بھی ہوتی ہے جو ہزاروں میل دور ہیں۔ کنگر ، پتھر اورذرات خیالات کی لہریں منتقل اور وصول کرتے ہیں ۔یہ سب ٹیلی پیتھی کی مثالیں ہیں اور ہمارے معمولات میں شامل ہیں۔
علمی توجیہ یہ ہے کہ کائنات میں ہر شے کا قیام لہروں پر ہے ۔ بالفاظ دیگر زندگی لہروں پر رواں ہے اور لہروں سے مخلوقات تخلیق ہوتی ہیں ۔ عموماً اس علم کو سیکھنے کی خواہش رکھنے والوں کا مقصد دنیاوی فائدے حاصل کرنا ہے تا کہ وہ ٹیلی پیتھی کے ذریعے اپنے معمول ( متعلقہ فرد) کو متاثر کریں ۔ چند حضرات اس علم کو اس لئے بھی سیکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
مثال کے طور پر وہ مریض کے ذہن میں صحت مند خیالات منتقل کر کے بیماری سے نجات دلانے میں مدد کرتے ہیں۔ جس طرح ایک آدمی دوسرے آدمی سےذہنی رابطہ قائم کر کے اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے، اسی طرح بیماریوں سے بھی ذہنی رابطہ قائم کر کے انہیں پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ مریض کو چھوڑ دیں کیوں کہ بیماریاں باشعور اور با اختیار ہیں۔
ٹیلی پیتھی سے متعلق مضمون میں ایک پروفیسر صاحب کا تذکرہ کیا گیا تھا جو میرے دوست ہیں اور کم لوگ واقف ہیں کہ وہ ٹیلی پیتھی جانتے ہیں۔ خلاصہ پڑھنے کے بعد اب مضمون پڑھئے ۔


ایک شام اپنے دوست ناصر جیلانی کے ساتھ میں پروفیسر صاحب کے گھر گیا ۔ ناصر بھائی ماورائی علوم سے ناواقف تھے اس لئے مخالف تھے۔ باتوں باتوں میں ذکر ٹیلی پیتھی کا آیا تو ناصر بھائی گویا ہوئے ، پروفیسر صاحب! ماورائی علوم دراصل شعبدہ بازی اور تخیل (imagination) کا کمال ہے۔ سیدھے سادے لوگ بے وقوف بن جاتے ہیں۔ پروفیسر صاحب تحمل مزاجی سے مسکرائے اور کہا، ناصر صاحب! ماورائیت کے بغیر زندگی زندگی نہیں۔ آنے والا ہر لمحہ مادی آنکھوں سے اوجھل ہے اور گزرنے والا وقت بھی مادیت کے بس میں نہیں۔ جب تک بندہ کو ماورائی ہستی کی خوش بو حاصل نہ ہو، دل بے قرار رہتا ہے۔ الہامی کتابیں تصدیق کرتی ہیں کہ ہر یا خیال ہمارے اندر حرکت کا سبب ہے۔ پروفیسر صاحب سے کہا، کوئی مظاہرہ ہونا چاہئے
انہوں نے کا غذ لیا، اس پر کچھ لکھا اور لیٹ کر میز پر رکھ دیا ۔ ایک بار پھر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ ایک مرحلہ پر پروفیسر صاحب بولے، ناصر بھائی ! زحمت نہ ہو تو سامنے کمرے سے میز پر رکھا گل دان لے آئیں۔ ناصر بھائی کمرے میں گئے اور کچھ دیر میں گل دان لے کر آگئے ۔ پروفیسر صاحب نے پوچھا ، آپ نے کمرے کی لائٹ کیوں نہیں جلائی ؟ ناصر بھائی بولے، کیسے پتہ کہ میں نے لائٹ نہیں جلائی۔ کیا آپ میرے پیچھے آئے تھے؟ پروفیسر صاحب نے نفی میں گردن ہلائی اور سامنے موجود میز پر کاغذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، کھول کر بآواز بلند پڑھیں ۔ ناصر بھائی نے کاغذ پر تحریر پڑھی ۔لکھا تھا، “ناصر بھائی کمرے میں گل دان اٹھانے جائیں گے لیکن لائٹ نہیں جلائیں گے ۔ ناصر بھائی نے کہا ، لائٹ کا بٹن نظر سے گزرا لیکن معلوم نہیں کہ میں نے لائٹ کیوں نہیں جلائی ! قارئین ! کچھ لوگوں نے مضمون کی بہت پذیرائی کی پھر ایک واقعہ پیش آیا۔
ایڈیٹر صاحب ادارت میں مشغول تھے۔ آج وہ مقررہ وقت سے پہلے آگئے تھے تا کہ نا مکمل کام مکمل کرلیں ۔ رسالہ کی تاریخ قریب آرہی تھی ، کئی مضامین اور کہانیوں کی نوک پلک سنوار نا تھی۔
ہفتہ کا پہلا دن ، موسم سہانا اور خوب صورت تھا ۔ بادلوں کی وجہ سے دھوپ کی تپش کم ہوگئی تھی۔ پنکھا حسب معمول چل رہا تھا ۔ کمرے میں خاموشی تھی۔ تحقیق اور تحریر کے لئے بطور خاص یک سوئی درکار ہوتی ہے۔ رسالہ کا دفتر پرسکون مقام پر واقع تھا۔ ٹریفک کا شور و غل نہ آس پاس کاروباری سرگرمی ۔ البتہ معلوم ہوتا تھا کہ آج خلاف معمول کچھ ہونے والا ہے جیسے درودیوار کو کسی کے آنے کا انتظار ہو۔
دس بجے ایڈیٹر صاحب صبح کی چائے پی کر ایک بار پھر ادارت کی طرف متوجہ ہوئے تو چوکیدار نے اطلاع دی کہ بہاولپور سے ایک صاحب آئے ہیں اور نام بھولے خان بتاتے ہیں۔ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ایڈیٹر صاحب بولے، اچھا بلاتے ہیں ۔ پھر مضمون کی نوک پلک سنوارنے میں مصروف ہو گئے۔
چوکیدار پھر آیا ۔ صاحب جی ! وہ صاحب آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور جلدی ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ او ہو۔ میں تو بھول گیا تھا ، اچھا انہیں بھیجو۔ کلف لگے سفید لباس میں ایک شخص داخل ہوا۔ بالوں میں تیل لگا کر سلیقہ سے کنگھی کی گئی تھی ۔ بآواز بلندسلام کیا اور ہاتھ جوڑ لئے ۔ ایڈیٹر صاحب نے کہا، تشریف رکھیں۔ بھولے خان کرسی پر بیٹھ گئے اور بغیر تمہید کے کہنا شروع کیا، آپ کو آپ کے ماں باپ، بچوں اور عزیز – ترین لوگوں کا واسطہ، میری مدد کریں۔
بھائی خیریت ہے، مسئلہ بتا ئیں ۔ بھولے خان کرسی سے اٹھا، ایڈیٹر صاحب کے پیر پکڑ لئے اور وہیں بیٹھ گیا۔ پہلے روتی صورت بنائی ، آہوں اور سسکیوں کی آواز آئی پھر زار و قطار رونا شروع کر دیا اور بتایا ، دو بڑے مسئلے ہیں ، اللہ کے واسطہ حل کریں۔ ایڈیٹر صاحب ناگہانی صورت حال سے پریشان ہو گئے اور بولے، میں ڈاکٹر ہوں نہ مجھے ٹوٹکے آتے ہیں ۔ مسئلہ بتائیں میں اپنی بساط کے مطابق حل کرنے کی کوشش کروں گا۔ پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے پانی ایک سانس میں پی لیا۔ میں بہاولپور سے سفر کر کے اس لئے آیا ہوں کہ میری آپ سے ایک التجا ہے۔

ایڈیٹر صاحب : وہ کیا؟ بھولے خان: آپ کے رسالہ میں ٹیلی پیتھی پر مضمون شائع ہوا تھا۔ اس میں پروفیسر صاحب کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ ان کا نام اور پتہ بتا دیں ۔ ان سے مل کر اپنے مسائل حل کرانا چاہتا ہوں ۔
ایڈیٹر صاحب بولے، دیکھئے مضمون میں لکھا تھا کہ پروفیسر صاحب نے منع کیا ہے کہ ان کا نام اور پتہ نہ بتایا جائے۔ ہم کیسے بتا دیں۔ یہ سننا تھا کہ بھولے خان نے روتے ہوئے سر پیٹنا شروع کر دیا۔ ایڈیٹر صاحب نے انہیں بڑی مشکل سے کرسی پر بٹھایا اور کہا، میرے بھائی! مسئلہ بتا ئیں ممکن ہے کہ ان کے بغیر حل نکل آئے۔ لیکن بھولے خان راضی نہ۔۔۔جاری ہے۔

Loading