Daily Roshni News

بیوی کے ہونٹوں کا تقدس بتاتی ایک حدیث

بیوی کے ہونٹوں کا تقدس بتاتی ایک حدیث

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )فیس بک پر ابھی ایک حدیث نظر سے گزری، نبی کریم برتن سے ٹھیک اسی جگہ اپنے مبارک لب رکھ کر مشروب نوش فرمایا کرتے، جہاں سیدہ عائشہ نے اپنے لب رکھ کر مشروب پیا ہوتا۔ اس ایک نبوی عمل سے کئی چیزیں سامنے آتی ہیں، ایک یہ کہ وہ جیسے کہتے ہیں، لیڈیز فرسٹ، آپ پہلے  اپنی محبوب بیوی کو مشروب پلاتے اور پھر ان کے بعد خود پیتے اور پھر اس پینے میں جو انداز محبت اپناتے اس سے دو چیزیں مزید آشکار فرما دیتے، اولا بیوی سے بے پناہ محبت اور دوسرے یہ کہ مومن کا جھوٹا پاک بھی ہوتا ہے اور محبوب کا جھوٹا گوارا ہی نہیں خوشگوار بھی ہوتا ہے اور تیسرا یہ کہ اہل محبت کو اظہار محبت میں کوئی باق کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ ایسے موقعوں پر اخفائے محبت نہیں، اظہار محبت دین ہے۔ مزید غور کیجیے تو آخری وقت میں سیدہ اپنے دانتوں سے مسواک چبا کے آپ کو دیتیں اور آپ اس سے اپنے دانت مبارک صاف فرماتے۔

 سچ کہوں تو زندگی یا تو عرب جی گئے یا یورپی۔  فرق یہ کہ عربوں نے دین کے ساتھ زندگی میں کشش بحال رکھی جبکہ اہل یورپ صرف دنیا میں بے حدود آگے بڑھتے گئے۔ میاں بیوی کے معاملے میں ہمارا مشرق محض مسکین اور یتیم ہے۔ یہاں بے چارے گھر میں ایک ساتھ ایک چارپائی پر بیٹھ نہیں سکتے کہ بے شرم کہلائیں گے۔ اپنی ہی بیوی کے ساتھ بیٹھنے، کھانے اور گھومنے کو بے شرمی کہنے والے کائنات میں شائد ہم ہی اس کرہ ارض پر پائے جاتے ہوں گے۔

 نبی کریم کی سیرت دیکھیں تو آپ اپنی پیاری بیوی کو نک نیم سے بلایا کرتے، کبھی عائش اور کبھی حمیرا کہہ کے۔ بے خبر لوگ نک نیم کو مغرب کی ایجاد اور عادت سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ سنت اور عبادت ہے۔ آپ نے اپنی بیوی کو عید کے ایک موقع پر مسجد میں کھیلے جاتے حبشیوں کے کسی روایتی کھیل کو اس قدر طویل عرصہ دکھایا کہ وہ آپ کی سیدہ سے محبت کی مثال ہوگیا۔ سیدہ آپ کے کندھے پر ٹھوڑی ٹکائے تادیر دیکھتی رہیں۔ کھیل میں دلچسپی نہ رہی تو بھی محض یہ دیکھنے کیلئے حبشیوں کا کھیل دیکھتی رہیں کہ آخر ان کے شوہر ان کیلئے کتنی دیر کھڑے رہ سکتے ہیں۔ سیدہ کے ساتھ کسی راہ میں دوڑ کامقابلہ بھی آپ نے کیا، ایک بار آپ جیت گئے اور ایک بار سیدہ۔ آپ نے تب یہ فرمایا، آج ہمارا مقابلہ برابر ہوگیا۔ آپ کے نکاح کی بھی سن لیجیے۔ ابھی شادی ہوئی نہ تھی کہ ریشمی رومال میں فرشتہ سیدہ کی تصویر لایا، دکھا کے کہنے لگا، یہ آپ کی دنیا اور آخرت میں بیوی ہیں۔

دراصل دین اور شریعت یہ چاہتی ہے کہ میاں بیوی کے رشتے میں کائنات کے ہر رشتے سے زیادہ کشش ، محبت اور مقناطیسیت ہو، کیونکہ اسی ایک رشتے پر معاشرے کے سکون اور بہبود کی بنیاد ہے۔ جب کوئی رشتہ نہ تھا تو جنت میں صرف میاں بیوی کا یہی ایک رشتہ تھا۔ اس رشتے کی اہمیت سمجھنی ہو تو دیکھئے کہ اس ایک رشتے کو توڑنے کے پیچھے شیطان کی سب سے زیادہ محنت جاری ہے۔ یہاں یہ ضرور ملحوظ خاطر رہے کہ شیطان جنوں میں سے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔ اس معاملے میں شیطان کی پہچان کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ میاں بیوی کے رشتے میں رخنہ یا رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ دنیا کا کوئی رشتہ ایسا نہیں، جو لباس سے بھی پار  وجود اور حیثیت  رکھتا ہو اور جسے قرآن خود ایک دوسرے کا لباس کہہ رہا ہو۔ لیکن کیسی مصیبت ہمارے معاشرے میں سارے لطیفے ،ساری دوریاں اور سارے پردے اور ساری شرمیں اسی ایک رشتے میں  رکھ دی گئی ہیں۔ یعنی جتنے شیطانی حجاب اس رشتے میں رکھے جا سکتے تھے،  وہ سارے ہم نے اپنی سوچ یا اقدار کے نام پر اس میں رکھ دئیے ہیں اور پھر ہمیں شکوہ یہ ہے کہ معاشرہ بگڑ رہا ہے۔ فکر اس پر جاری ہے کہ یہ رشتہ سکڑ رہا ہے اور بغیر اس رشتے کے مرد و زن میں قربتیں اور الفتیں پھیل رہی ہیں۔

ہمارے ہاں مسئلہ اس رشتے کے آغاز میں بھی پیدا کرنے کیلئے پوری محنت کی جاتی ہے، کافی کچھ زہر تو وہیں بو دیا جاتا ہے۔ جب بچوں کی پسند کے خلاف شادی کر دی جاتی ہے۔ اس سے خاک محبت پیدا ہوگی؟ دین جبری نکاح کو نکاح ہی نہیں مانتا، آپ نے ایک صحابی سے فرمایا ، اپنی  ہونے والی منکوحہ کو نکاح سے پہلے ایک نظر دیکھ لو۔ اس سے محبت پیدا ہوگی۔ ہم یہاں بھی محبت کی جگہ عبرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس پر پورا پہرا دیتے ہیں کہ کہیں اس رشتے میں ہمارے چھڑکے زہر کی جگہ خدانخواستہ محبت کے گلاب کھلنے اور قربت کے رنگ نہ چھلکنے لگیں۔ بس شروع میں لکھی حدیث دیکھی تو بے ساختہ چند سطور لکھتا چلا گیا۔  شاد رہئے اور شیطان کے نہیں، میاں بیوی کے حق میں رہئے۔

#یوسف_سراج

Loading