ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔ بے روح رسم۔۔۔ تحریر ۔۔۔۔۔۔۔ سید اسلم شاہ) مزہب اور دین میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھیے۔ لوگ مزہب کی مروجہ شکل کو دین سمجھ رہے ہیں جبکہ ان مزاہب کا یونیورسل دین کے ساتھ کچھ تعلق نہیں۔ دین کسی نوع انسان کی ذاتی وراثت و ملکیت نہیں یہ کل نوع انسانیت کا سرمایہ حیات ہے، جبکہ مزہب ہر کسی کی ذاتی ملکیت و میراث ہے۔ دین وہ ہے جس سے انسان نکلا ہے اور مزہب وہ ہے جو انسانوں سے نکلا ہے۔ دین وہ طریقہ ہے جس پر انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے جبکہ مزہب تہزیب و ثقافت کے وہ رسم و رواج ہیں جو ہر دور کے لوگوں نے اپنے اپنے معاشروں کے عوام کو مہذب بنانے کے لیے وضع کیے جو وقت کے ساتھ ٹھوس عقیدے بن گئے۔ جب دین کے سمندر کو جھوٹی ندیوں کی طرف گامزن کر دیا جائے تو سمندر اپنا تشخص چھوڑ کر مزہب میں ڈھل جاتا ہے۔ مزہب وہ خوردرو پودا ہے جو دین کے درخت سے لپٹ کر اس کی ساری طاقت چوس لیتا ہے اور بلآخر دین کا شجر نیم بسمل ہوکر تڑپتا پھڑکتا اپنے دن پورے کرتا ہے دین کے تابوت پر آخری کیل ماضی پرستی کی، تقلید کے ہتھوڑے سے ٹھوک دی جاتی ہے۔ اورپھر زندہ و جاوید دین بدبودار گڑھے میں بدل کر مردہ پرستی کی خطرناک جان لیوا بدبو سے لت پت ہو جاتا ہے۔ جس فضا میں سانس لینا بھی زندہ انسانوں کے لیے جان لیوہ ثابت ہوتا ہے۔ مزہب دین کی سڑی گلی لاش کو کہتے ہیں جبکہ دین انسان کو مردہ سے زندہ کرتا ہے روح شناس و خدا شناس بناتا ہے۔ دین کا تعلق کسی کے ماضی سے نہیں ہوتا یہ تو تمھارے حال سے بحث کرتا ہے۔ دین مزہب تب بنتا ہے جب رسم رہ جاتی ہے اور اس میں سے روح نکل جاتی ہے۔
۔
رہ گئی رسم اذان روح بلالی نہ رہی