تازہ غزل
شاعر۔۔۔ شہزاد تابشِ
زندگی کارواں پہ رکھی ہے
مستقل امتحاں پہ رکھی ہے
کچھ خطائیں ہیں میری فطرت میں
جن کی بخشش “وہاں” پہ رکھی ہے
مرے معمار میرے کمرے کی
تو نے کھڑکی کہاں پہ رکھی ہے
زیست رکھی ہے خاک دانوں میں
مستقل آسماں پہ رکھی ہے
دل مضطر نے اپنی ساری خوشی
تری چھوٹی سی ہاں پہ رکھی ہے
گر کہو تو اٹھا کے لے آؤں
تم نے قربت جہاں پہ رکھی ہے
میری پرواز کی تھکن ساری
خواہش آشیاں پہ رکھی ہے
تیر طاقت کی اک علامت ہے
جس کی کنجی کماں پہ رکھی ہے
میں نے حق کی نوا سدا تابشِ
سوزِ نوک زباں پہ رکھی ہے
شہزاد تابشِ
لاھور، پاکستان