۔۔۔۔ تازہ کلام ۔۔۔
شاعر۔۔۔شہزاد تابش
چشمِ انجان سے ہم عہد وفا کیا کرتے
شہر خوں ریز میں خنجر سے گلہ کیا کرتے
کٹ گئی رات ہتھیلی پہ بنا کر جگنو
آخری شب میں چراغوں کی ضیا کیا کرتے
جسم بکتے تھے یہاں رزق شکم کی خاطر
روبرو غیر کے وہ سر پہ ردا کیا کرتے
شہر کے لوگ سبھی قید تھے زنجیروں میں
ایسے حالات میں پندار و انا کیا کرتے
بھوک کی فصل جہاں اگتی ہو کھلیانوں میں
شہر افلاس میں کچھ دست سخا کیا کرتے
بھانپ رکھا تھا ارادہ ترا جانے والا
تجھ کو کرتے نہ وداع ہم تو بتا کیا کرتے
ہم نے خوداری کو مر کے بھی نبھایا تابشِ
اپنے قاتل سے لیا خون بہا کیا کرتے
شہزاد تابشِ