Daily Roshni News

تحریک انصاف کی قیادت نہیں چاہتی کہ عمران خان جیل سے باہر آئیں‘ پہلا قدم عدت کیس واپس لے کر اٹھایا جاسکتا ہے.فواد چوہدری

 سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے دعوی کیا ہے کہ جو لوگ اس وقت تحریک انصاف کی قیادت کررہے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ عمران خان جیل سے باہر آئیں کیوں کہ جس دن وہ باہر ائیں گے ان کے پروٹوکول اور پارٹی میں عمل دخل ختم ہوجائے گا امریکی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں فواد چوہدری نے کہا کہ پارٹی کی موجودہ قیادت کو خوف ہے کہ اسد عمر، فواد چوہدری، علی زیدی اور عمران اسماعیل واپس نہ آ جائیں انہوں نے کہا کہ شیریں مزاری، مسرت جمشید چیمہ، عثمان ڈار، ملیکہ بخاری پر کیا بیتی، موجودہ قیادت نے کبھی پوچھنا گوارا نہیں کیا.

فواد چوہدری نے بتایا کہ حراست کے دوران حراست ان پر بدترین تشدد کیا گیا گرفتاری کے بعد اسلام آباد پولیس نے ایک اور ادارے کے حوالے کر دیا جس کے اہلکار تشدد کی ویڈیوز بنا کر اعلی حکام کو بھیجتے رہے انہوں نے کہاکہ میں انسانیت سوزمظالم کی تفصیل نہیں بتاسکتا‘ بجلی کے جھٹکوں سمیت ہر قسم کا تشدد کیا گیا. انٹرویو میں فواد چوہدری نے کہا کہ فوج سے رابطے منقطع کرنا عمران خان کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کے باعث حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں میں اضافہ ہوا انہوں نے کہا کہ اگر تحریک انصاف کے مرکزی راہنما اور عمران خان فوج سے رابطے رکھتے تو شاید غلط فہمیاں اتنی نہ بڑھتیں.

انہوں نے کہاکہ کوئی تو تھاجو عمران خان کو بتا رہا تھا کہ یہ آپ کو قتل کروا دیں گے اور ادھر فوجی قیادت کو کہہ رہا تھا کہ عمران خان آپ کو نہیں چھوڑے گافواد چوہدری نے کہا کہ جب رابطہ ہی نہیں رہا اور ہمارے جیسے پارٹی راہنما بھی درمیان سے نکل گئے تو غلط فہمیاں بڑھ گئیں فواد چوہدری نے کہا کہ وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کی فوج سے رابطے منقطع کرنے کی بات مان کر غلطی کی.

فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان اور فوج کے درمیان لڑائی نہیں ہے البتہ تلخیاں پائی جاتی ہیں جنہیں دونوں جانب سے ایک ایک قدم پیچھے ہٹ کر بات چیت سے دور کیا جا سکتا ہے انہوں نے کہاکہ اس ضمن میں پہلا قدم فوج کو لینا ہو گا اور وہ قدم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف عدت کا مقدمہ واپس لے کر لیا جا سکتا ہے. انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے کل ہی عدت کا مقدمہ واپس لیں اور اس پر عمران خان اور بشریٰ بی بی سے معذرت ہونی چاہیے فواد چوہدری نے کہا کہ انہوں نے عمران خان کے کہنے پر تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کی تاہم استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کے لیے ا±نہیں زبردستی اسلام آباد سے لاہور لے جایا گیا انہوں نے بتایا کہ کہ دوران حراست ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا صرف تشدد کیا جاتا رہا ان کے سابقہ عہدے اور پارلیمنٹ کے منتخب نمائندے ہونے کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا.

فواد چوہدری نے بتایا کہ گرفتاری کی رات اسلام آباد پولیس نے انہیں ایک اور ادارے کے اہلکاروں کے حوالے کر دیا جنہوں نے پوری رات بیہمانہ تشدد کیا اور ویڈیوز بنا کر اعلی افسران کو بھیجیں فواد چوہدری نے کہا کہ ان مشکل حالات میں مشترکہ دوستوں نے مداخلت کی اور کہا کہ پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لیں اور نو مئی کے واقعات کی مذمت کریں تو ہی دوبارہ گرفتاری سے جان چھوٹ سکتی ہے.

انہوں نے کہا کہ عمران خان بھی سپریم کورٹ میں نو مئی کی مذمت کر چکے تھے اور انہوں نے بھی مذمت کر دی جس پر انہیں ہائی کورٹ کے باہر سے دوبارہ گرفتار نہیں کیا گیا اور کچھ رعایت مل گئی فواد چوہدری نے دعوی کیا کہ پارٹی اور سیاست سے وقتی طور پر علیحدگی کا اعلان عمران خان کے مشورے سے کیا تھا تاکہ ذہنی اذیت اور تشدد سے بچا جا سکے. انہوں نے بتایا کہ پہلی بار گرفتاری سے رہائی پر عمران خان نے انہیں فون کیا اور پوچھا کہ کیا تم پر تشدد ہوا جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کافی تشدد ہوا ہے‘فواد چوہدری نے بتایاکہ اس کے بعد انہوں نے پارٹی کے ایک پیغام رساں کے ذریعے عمران خان سے پوچھا کہ کیا کیا جائے؟ تو عمران خان نے کہا کہ اتنا تشدد برداشت نہیں کیا جا سکتا تم پارٹی سے کچھ وقت کے لیے علیحدہ ہو جاﺅ.

فواد چوہدری نے دعوی کیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر پارٹی سے علیحدگی کا اعلان حاضر سروس اہلکار کیا کرتے تھے اور جتنا عرصہ وہ زیر حراست رہے یہی اہلکار ان کا اکاﺅنٹ چلاتے تھے. یاد رہے کے گرفتاریوں اور مقدمات کے باعث تحریک انصاف کے متعدد راہنماﺅں نے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا جن میں پارٹی سیکرٹری جنرل اسد عمر، نائب صدر شیریں مزاری، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل اور کئی مرکزی رہنما شامل ہیں فواد چوہدری نے کہا کہ علی زیدی، عمران اسماعیل ہم میں سے کوئی بھی استحکام پاکستان پارٹی میں جانے کو تیار نہیں تھے ہمیں زبردستی ”صاحبان“ لے کر گئے صاحبان پہلے ہمیں اسلام آباد سے لاہور لے کر گئے اور وہاں آئی پی پی کے کنونشن میں لے گئے خیال رہے کہ رواں برس ہونے والے عام انتخابات سے قبل استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں آئی تھی جہانگیر ترین اس پارٹی کے سرپرست جب کہ علیم خان کو صدر بنایا گیا تھااورتحریک انصاف کے کئی رہنما اس پارٹی میں شامل ہو گئے تھے.

فواد چوہدری نے کہا کہ فوج سے دیرینہ اور گہرے تعلق کے سبب وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا اور زبردستی انتخابی سیاست سے دور کیا جائے گا فواد چوہدری نے بتایا کہ انہیں شیخ رشید کا فون آیا جنہوں نے کہا کہ اگر میں اور تم بھی فوج کے خلاف ہیں تو پھر اس ملک میں فوج کا حامی کون ہے فواد چوہدری نے کہا ک پیر پگاڑا، شیخ رشید، مولانا فضل الرحمان، پرویز الہی سب ہی اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ پالیسی کے ساتھ نہیں ہیں فوج سے رابطوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ فوج سے اب کیا رابطہ ہونا انہوں نے دوران حراست جو سلوک کیا اس کے بعد رابطوں کا جوازنہیں رہتا.

فواد چوہدری نے کہا کہ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ فوج ملک کا ایک لازمی جز ہے اور فوج کے بغیر ملک نہیں چل سکتا ہے لیکن پاکستان میں ایک سماجی تبدیلی آچکی ہے اور آج کے بدلے ہوئے حالات میں فوج کو سیاست میں اپنا کردار محدود کرنا ہو گا. فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں اب صرف فوج ایک طاقت نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں اور عوام بھی حقیقت ہیں لہذا ملک کو آگے لے کر جانے کے لیے تمام شراکت داروں کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے.

انہوں نے کہا کہ اگر تحریک انصاف صرف فوج سے بات کرے گی تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک طرف ہو جائیں گے تو فوج پھر وہیں کھڑی ہو جائے گی انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ سب سے بات کرے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جماعت کی موجودہ قیادت سیاسی وزن اور حیثیت نہیں رکھتی کہ وہ سیاسی قائدین اور اداروں کے سربراہوں سے بات کر سکیں. انہوں نے کہا کہ ہمارا سب کا فوج سے کون سا ذاتی جھگڑا تھا ہمارے تو اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات تھے لیکن اس کے باوجود تشدد کا سامنا کیا فواد چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت بغیر قربانیوں اور جدوجہد کے پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ہیں اور انہیں احساس تک نہیں کہ جو لوگ جیلوں میں ہیں یا جنہوں نے حراست میں تشدد برداشت کیا ہے ان پر کیا بیتی ہے.

فواد چوہدر ی نے کہا کہ عمران خان ان کی قربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ تحریک انصاف میں تھے ہیں اور رہیں گے تحریک انصاف کے انتخابی ٹکٹ نہ دینے کے سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ انہیں الیکشن ہی لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی تو ٹکٹ نہ ملنے کا عمران خان سے شکوہ نہیں بنتا.

Loading